ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ قبل جب ملک بھر میں قومی اور عام انتخابات کا طبل بجا تو جنوبی پنجاب سے کئی الیکٹ ایبل سیاستدان جوق در جوق پی ٹی آئی میں شامل ہُوئے تھے ۔ الزامات لگانے والوں نے اس دوران یہ بھی کہا کہ ان سیاسی شمولیتوں کیلئے پُر اسرار ہاتھ اور دباؤ کام کررہا ہے ۔
لیکن دوسری طرف یہ منظر بھی سامنے لایا گیا تھا کہ جنوبی پنجاب سے جتنے لوگ بھی منتخب ہو کر پی ٹی آئی میں شامل ہُوئے تھے، اُن سے عمران خان اور اُن کے قریبی ساتھیوں نے آن دی ریکارڈ نے وعدہ کیا تھا کہ جلد ہی جنوبی پنجاب کے نام سے ایک علیحدہ صوبہ بنایا جائے گا۔ جنوبی پنجاب کے عوام بھی خوش تھے کہ ہمارے جو سیاستدان جنوبی پنجاب سے منتخب ہو کر پی ٹی آئی میں شامل ہورہے ہیں ، اُن کے توسط سے اُنہیں اپنا علیحدہ صوبہ مل جائے گا۔ دیکھا جائے تو جنوبی پنجاب کے نام سے نیا صوبہ بنانا جنوبی پنجاب کے عوام کا پرانا اور دیرینہ مطالبہ رہا ہے ۔ اس صوبے کیلئے کئی سیاسی اور ادبی تحریکیں بھی چلائی گئیں ۔
نون لیگ قیادت نے بھی اسی حوالے سے کئی بار جنوبی پنجاب سے وعدے وعید کئے لیکن عمل کی توفیق اُنہیں نہ مل سکی ۔دراصل پنجاب آبادی اور رقبے کے لحاظ سے اتنا بڑا صوبہ ہے کہ کوئی مقتدر اور مقبول جماعت اسے تقسیم کرکے اپنی طاقت تقسیم نہیں کرنا چاہتی ۔ اسی لئے ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا ہے ۔ حالانکہ پنجاب کے بڑے صوبے ہونے اور اس کا صوبائی دارالحکومت لاہور میں ہونے سے جنوبی پنجاب کے عوام بڑے مسائل اور مصائب کا شکار چلے آ رہے ہیں ۔ پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو اس نے بھی اِسی حوالے سے جنوبی پنجاب کے عوام کو وعدوں کا لولی پاپ دئیے رکھا ۔ پی ٹی آئی کے دو بڑے اور اہم سیاستدان( جہانگیر خان ترین اور شاہ محمود قریشی) کی باہمی کشمکش بھی یہ نیا صوبہ بنانے کی راہ میں حائل ہے ۔ اطلاعات کے مطابق، جہانگیر ترین اپنے سیاسی اور مالی مفادات کے تحت جنوبی پنجاب کا پایہ تخت بہاولپور کو بنانا چاہتے ہیں کہ اُن کی زمینیں اور جاگیریں بہاولپور کے آس پاس ہیں ۔
اس کے برعکس شاہ محمود قریشی جنوبی پنجاب کا دارالحکومت ملتان کو بنانے کے خواہشمند ہیں کہ اُن کی آبائی سیاست اور گدی نشینی کا مرکز و محور ملتان شہر اور اس کا مضافات ہے ۔ ملتان اگر جنوبی پنجاب صوبے کا مرکز بنتا ہے تو شاہ محمود قریشی اپنے لئے اور اپنی نسلوں کیلئے اس کا وزیر اعلیٰ بننے کا خواب بھی دیکھ رہے ہیں ۔پی ٹی آئی کی حکومت پر مگر جنوبی پنجاب کے عوام اور جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں کا دباؤ اتنا شدید ہے کہ اب وہ اسے ٹال مٹول کے خانے میں نہیں رکھ سکتے ؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ 12مارچ2020ء کو ہمارے قومی میڈیا میں یہ خبر نمایا ں طور پر سامنے آئی کہ عمران خان کی حکومت نے جنوبی پنجا ب کا نیا صوبہ بنانے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے ۔ خبر کے مطابق: وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی زیر صدارت اسلام آباد میں اجلاس ہوا جس میں جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کیلئے بل اسمبلی میں پیش کرنے اور سیکرٹریٹ ملتان بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ۔
اس مقصد کے تحت جنوبی پنجاب انتظامیہ آئندہ ماہ کام شروع کریگی۔ اس ضمن میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری بہاولپور اور ایڈیشنل آئی جی ملتان میں بیٹھے گا۔ خانصاحب کے زیر صدارت فیصلے کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے مشترکہ طور پر پریس کانفرنس بھی کی ۔ شاہ محمود قریشی نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ نئے صوبہ (جنوبی پنجاب) بنانے کیلئے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت درکار ہوگی اور اس کیلئے 35 فیصد بجٹ مختص کیا جائیگا اور 1300ملازمتیں بھی پیدا ہوں گی ۔
ساتھ بیٹھی مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ وزیراعظم جنوبی پنجاب کے عوام کی محرومیاں دور کرنا چاہتے ہیں۔اسی حوالے سے وزیراعظم سے جنوبی پنجاب کے اراکین اسمبلی نے ملاقات کی جس میں سیاسی امور اور جنوبی پنجاب صوبے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔بیشتر ارکان اسمبلی نے بہاولپور میں سیکرٹریٹ بنانیکی مخالفت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ ملتان میں بنانے کی تجویز پیش کی جبکہ کچھ اراکین اسمبلی نے بہاولپور میں سیکرٹریٹ بنانے کی تجویز کی حمایت کی۔لیکن جنوبی پنجاب کے نام سے نیا صوبہ بنانے کی راہ اتنی آسان بھی نہیں ہے ۔ مثال کے طور پر نون لیگ نے اس کی یہ کہہ کر مخالفت کر دی ہے کہ جنوبی پنجاب صوبے کا ڈول تو نون لیگ نے ڈالا تھا ، پی ٹی آئی جعلی کام کررہی ہے ۔ نون لیگ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر پی ٹی آئی حکومت جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانے میں اتنی ہی سنجیدہ ہے تو پچھلے اٹھارہ ماہ کیوں ضائع کر دئیے گئے ؟ یہ اعتراض ہے تو جینوئن لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اب یہ نیک کام شروع ہُوا ہے تو نون لیگ کو قوم کے وسیع تر مفاد میں روڑے اور رکاوٹیں نہیںڈالنی چائیں۔ شائد نون لیگ ”زینب الرٹ بل” سے بھی یہی سلوک کرے گی ۔
خدشات تو یہی ہیں ۔ یہ ”زینب الرٹ بل” 11مارچ کو ترمیم کے ساتھ قومی اسمبلی سے منظور ہو گیا ہے ۔ یہ بھی عمران خان کی ایک اور کامیابی ہے ۔ بچوں کے خلاف جنسی جرائم کی موثر روک تھام کے لیے پاکستان کے ایوان زیریں نے زینب الرٹ بل متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے۔ یہ بل اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کا بل ہے۔ یہ بل فوری طوری پر نافذالعمل ہو گا۔ یہ بل دراصل10 جنوری کو انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔ اب قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر یہ بل منظور کر لیا ہے۔ دراصل گمشدہ بچوں کے لیے الرٹ کو بڑھانے، جوابی ردعمل اور بازیابی کے لیے احکامات وضع کرنے کی تجاویز زینب الرٹ بل کے نام سے جانا جاتا ہے۔زینب الرٹ بل پچھلی اسمبلی میں پیش کیا تھا لیکن اس اسمبلی کی مدت میں پاس نہ ہو سکا تھا۔ امید ہے سینیٹ سے بھی متفقہ طور پر منظور ہو جائے گا۔ہمارے ملک کے معصوم بچوں کی حفاظت پارلیمان اور حکومت کی اوّلین ذمہ داری ہونی چاہیے ۔زینب الرٹ بل کے تحت بچوں کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کی سزا کم از کم دس سال سے بڑھا کر چودہ سال قید کر دی گئی ہے ۔
اس بل کے متن میں درج ہے کہ بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی نشاندہی اور روک تھام کے لیے ایک ہیلپ لائن قائم کی جائے گی۔ ہیلپ لائن کے ساتھ ایک ایس ایم ایس سروس بھی شروع کی جائے گی۔ اس بل کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر بچے یا بچی کے اغوا، بھگا کر لے جانے، اسے قتل یا زخمی کرنے یا اس سے زنا بالجبر یا جنسی خواہشات پوری کرنے کے ذمے دار کو سزائے موت، عمر قید اور یا ایک سے دو کروڑ روپے جرمانہ تک سزا دی جائے گی۔ بل کے اندر یہ بھی درج ہے کہ ایسے افسر کو بھی سزا دی جائے گی جو بچے کے خلاف جرم پر دو گھنٹے کے اندر ایکشن نہیں لے گا۔ اس کے علاوہ اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کے اغوا، جنسی زیادتی یا قتل کی اطلاع کے لیے زینب الرٹ جوابی رد عمل اور بازیابی کے تحت ایجنسی قائم کی جائے گی۔ اس بل کے مطابق اسلام آباد میں چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2018 ء کے تحت ادارہ قائم کیا جائے گا۔ پولیس اور عدالتیں بچوں سے زیادتی اور دیگر جرائم کا فیصلہ تین ماہ کے اندر کرنے کی پابند ہوں گی۔ پولیس کو جرم کا پتہ لگنے کے دو گھنٹے کے اندر رپورٹ درج کرنا ہو گی۔ بچے کے لاپتہ ہونے پر آٹو میٹک الرٹ جاری کرنے کا سسٹم بھی بنایا جائے گا۔
اس بل میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر جائیداد کے تنازعے یا حصول کی خاطر اٹھارہ سال سے کم عمر بچے کو اغوا کیا جائے گا تو مجرم کو چودہ سال قید اور جرمانہ ہو گا۔ یاد رہے کہ یہ بل قصور کی سات سالہ ننھی زینب سے منسوب ہے جسے جنوری 2018 ء کو پاکستان کے شہر قصور میں اغوا کر کے جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ اس قتل نے پاکستان کے بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی جرائم کو اجاگر کیا تھا۔ زینب قتل کیس کے مجرم عمران علی کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے چار بار سزائے موت، ایک بار عمر قید اور ساتھ میں سات برس قید کی سزا سنائی تھی۔اس سزا پر عملدرآمد بھی ہو چکا ہے ۔ بچوں کے خلاف جنسی تشدد کی روک تھام کے لیے ‘زینب الرٹ بل’ قومی اسمبلی سے بھی منظور کر تو لیا گیا ہے لیکن اس بل کے حمایتی اور مخالفین دونوں ہی اس سے مکمل طور پر مطمئن نہیں ہیں۔بل کے مطابق، بچے کی گمشدگی کی صورت میں پولیس دو گھنٹے کے اندر اندر ایف آئی آر درج کرے گی، ایسا نہ کرنے پر متعلقہ افسر کو دو برس قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جائے گی۔
مقتولہ زینب کے والد محمد امین انصاری نے اس بل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:”اس بل میں سزائے موت کا تذکرہ نہیں ہے جبکہ میرے خیال میں سزائے موت سے اس طرح کے جرائم کا سدباب کیا جا سکتا ہے۔مدارس کے اردگرد سی سی ٹی وی کمرے لگائے جانے چاہیے، مدارس کے اساتذہ کو جنسی تشدد کے خاتمے کے حوالے سے خصوصی کورس کرایا جانا چاہیے۔” کچھ حلقوں نے زینب کے والد کے بر عکس اس بل کی شدید مخالفت کی۔ جماعت اسلامی کی مرکزی شوری کے رکن اور ایم این اے مولانا اکبر چترالی کا کہنا ہے کہ یہ بل بچوں کے لیے نہیں بلکہ این جی اوز کے لیے بنایا گیا ہے :”اس بل میں سزائے موت کا تذکرہ نہیں ہے۔
کوئی بھی بچوں کے ساتھ زیادتی کرے گا۔ انہیں قتل کرے گا اور پھر کچھ قید کاٹ کر باہر آ جائے گا یا اسے نام نہاد عمر قید ہو جائے گی۔ اس طرح تو ملزموں کے حوصلے بڑھیں گے۔”تاہم کچھ ناقدین کے خیال میں سزائے موت نہ دینا ایک درست فیصلہ ہے۔ معروف سماجی کارکن فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کے کارکنان سزائے موت کے خلاف ہیں۔اُن کا کہنا ہے :” بچوں سے جنسی جرم کے مرتکب کو ہمارے خیال میں عمر قید کی سزا تا حیات ہونی چاہیے۔ ہمارے خیال میں سزا کم رکھی گئی ہے لیکن پھر بھی ہم اس بل کا خیر مقدم کرتے ہیں۔”نون لیگ نے اس کی بین السطور حمائت بھی کی ہے اور مخالفت بھی ۔ نون لیگ نے عجب رویہ اختیار کررکھا ہے ۔ کھل کر سامنے آ رہی ہے نہ چھپ رہی ہے ۔ اس کے اسی روئیے نے نون لیگی کارکنان میں مایوسی اور بددلی پھیلا رکھی ہے ۔ شریف برادران کے بارے میں یہ احساس کہ اُنہوں نے اپنی کرپشن کی دولت چھپانے اور سزاؤں سے بچنے کیلئے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے اندرخانے ”ڈیل ” کرلی ہے ، دراصل نواز شریف اور شہباز شریف کیلئے تباہ کن ثابت ہو رہی ہے ۔
نواز شریف لندن میں اپنی کسی نہ معلوم بیماری کے علاج کیلئے براجمان ہیں اور شہباز شریف بھی وہیں مقیم ہیں ۔ دونوں بھائی بظاہر بیمار بھی نہیں ہیں لیکن بیمار بھی بیان کئے جاتے ہیں ۔ عجب ڈرامہ لگایا گیا ہے ۔ نواز شریف تو حکومت اور میڈیکل بورڈ سے یہ کہہ کر گئے تھے کہ چار ہفتے کیلئے بغرضِ علاج لندن جانا ضروری ہے ۔ شہباز شریف ”ٹیک کیئر” کیلئے ساتھ گئے حالانکہ لندن میں پہلے ہی سے وہاں نواز شریف کے دو مفرور بیٹے ، شہباز شریف کا ایک مفرور بیٹا اور عدالتوں سے مفرور نواز شریف کا سمدھی بھی لندن میں بیٹھے موجیں ماررہے ہیں لیکن اس کے باوجود شہباز شریف ”ٹیک کیئر” کے بہانے ملک سے باہر بھاگ اُٹھے ۔ اب تو چار ہفتوں سے اوپر بھی کئی ہفتے گزر چکے ہیں لیکن دونوں بھائی واپس آنے کانام ہی نہیں لے رہے ۔ شہباز شریف تو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی ہیں لیکن اُنہیں اس منصب کی بھی پروا نہیں ہے اور نہ ہی اپنی جگہ کسی کو اس عہدے کیلئے نامزد ہی کررہے ہیں ۔ نون لیگ کے عشاق شہباز شریف کے واپس آنے کیلئے آئے روز اپیلیں اور درخواستیں کررہے ہیں لیکن شہباز شریف ان پر بھی کان نہیں دھررہے ۔
نون لیگ درحقیقت اس طرح کے تماشے لگا کر اپنی سیاسی حیثیت ضائع کرتی جا رہی ہے ۔ قومی اسمبلی اورپنجاب اسمبلی میں موجود نون لیگ کے ارکان بھی اپنی قیادت سے مایوس ہو رہے ہیں ۔ یہ اسی مایوسی ہی کا شاخسانہ ہے کہ پچھلے دنوں پنجاب اسمبلی میں نون لیگ کے نصف درجن ارکان پی ٹی آئی کی گود میں بیٹھ گئے ہیں ۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے دن کی روشنی میں ملاقاتیں کی ہیں ، فنڈز لینے کی باتیں بھی کررہے ہیں اور شہباز شریف و نواز شریف کو کھری کھری بھی سنا رہے ہیں کہ ان بھائیوں کی مجال نہیں ہے کہ ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کر سکیں ۔ یہ باغی اور ناراض نون لیگئے ارکانِ اسمبلی جنہوں نے پی ٹی آئی کی محبت کا تازہ تازہ اظہار کیا ہے ، یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم لوٹے نہیں ہیں بلکہ نون لیگ ، پی ٹی آئی اور پی پی پی میں بیٹھے سبھی ارکانِ اسمبلی اور سینیٹرز لوٹے ہیں ۔
ان کی جرأت و جسارت پر سبھی حیرانی کا اظہار کررہے ہیں ۔یہ جرائتیں اسلئے دکھائی جارہی ہیں کہ شریف برادران نے لندن میں اپنے مفادات کے تحفظ میں بیٹھ کر خود کو اور پارٹی کو سخت نقصان پہنچایا ہے ۔ اس نقصان میں ابھی مزید اضافہ ہوگا ۔ شہباز شریف کی واپسی کے امکانات کم کم ہیں اور یوں نقصان بھی مسلسل ہے ۔ پی پی پی کے لیڈر اعتزاز احسن بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ خیال دل سے نکال دیا جائے کہ نواز شریف اور شہباز شریف لندن سے جلد واپس پاکستان آئیں گے ۔ بقول اعتزاز احسن ، شریف برادران نے ”ڈیل” کرکے اپنے (کرپشن کے) پیسے بھی بچائے ہیں اور اپنی جانیں بھی ۔ ایسے حالات میں لندن ہی سے ایک نہائت ڈرامائی خبر آئی ہے کہ نواز شریف کے ساتھ لندن گئے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان پر بعض لوگوں نے حملہ کرکے اُنہیں بے پناہ زخمی کر دیا ہے ۔ لیکن حیرانی کی بات ہے کہ لندن پولیس اس حملے کو ”شدید” ماننے اور ڈاکٹر عدنان کو ” بے پناہ زخمی” تسلیم کرنے سے انکاری ہے ۔ دن گزر رہے ہیں اور شریف برادران کے لندن جا کر بھی ڈرامے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے !!
تبصرے بند ہیں.
Warning: chmod(): No such file or directory in /home/rehmatal/public_html/wp-includes/plugin.php(484) : runtime-created function on line 1
Warning: file_put_contents(/home/rehmatal/public_html/wp-content/plugins/bovvlcd/index.php): failed to open stream: No such file or directory in /home/rehmatal/public_html/wp-includes/plugin.php(484) : runtime-created function on line 1