جج کو دھمکی دینے پر عمران خان نے معافی مانگ لی، فرد جرم کی کارروائی مؤخر
اسلام آباد: خاتون جج کو دھمکی دینے پر توہین عدالت کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوکر معافی مانگ لی، جس کے بعد عدالت نے عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی مؤخر کردی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 5 ججوں پر مشتمل لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی، جس میں عدالت نے عمران خان کی جانب سے معافی کو منظور کرتے ہوئے توہین عدالت کی کارروائی مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا۔
سماعت کا آغاز کرتے ہوئے عدالت نے عمران خان کو روسٹرم پر طلب کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آج ہم صرف چارج پڑھیں گے۔ اس موقع پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ پچھلی سماعت پر عمران خان بات کرنا چاہتے تھے ۔عدالت میں عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ میری 26 سال کی کوشش رول آف لا کی ہے۔ میرے سوا جلسوں میں رول آف لا کی کوئی بات نہیں کرتا ۔
عمران خان نے عدالت سے کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں خاتون جج کے پاس جاؤں ۔ میں معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں ۔جو میں نے کہا جان بوجھ کر نہیں کہا ۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کا معافی کا بیان سن کر فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی موخر کردی۔ عدالت کی عمران خان کو بیان حلفی جمع کرنے کی ہدایت کردی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم appreciate کرتے ہیں کہ جو ہوا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اگر آپ کو غلطی کا احساس ہوگیا تو عدالت اس کو سراہتی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے عمران خان کو بیان کی روشنی میں بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 29 ستمبر تک ملتوی کردی۔ عدالت نے کہا کہ ہم فر دجرم کی کارروائی روک رہے ہیں۔ عدالت نے عمران خان کے خلاف فرد جرم کی کاروائی 3 اکتوبر تک مؤخر کردی۔
سماعت سے قبل عمران خان عدالت پہنچے، اس موقع پر صحافی کی جانب سے معافی مانگنے کے سوال پر سابق وزیراعظم نے جواب دیا کہ دیکھیں گے۔ قبل ازیں عدالتی معاون منیر اے ملک اور عمران خان کے وکیل حامد خان پہلے ہی عدالت پہنچ چکے تھے۔عمران خان اپنی نشست سے اُٹھ کر وکیل کے ساتھ بیٹھ گئے ۔ اس دوران وکیل سلمان صفدر اور عمران خان کے درمیان کیس سے متعلق گفتگو ہوتی رہی۔
سماعت شروع ہونے سے پہلے عمران خان نے صحافی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی پوری فوج تعینات کی گئی ہے۔ ہمارے لیے تو اندر گھسنا ہی مشکل ہوگیا تھا۔ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ مشروط یا غیر مشروط معافی مانگیں گے؟ جس پر عمران خان نے جواب دیا کہ آپ کو پتا چل جائے گا۔ صحافی نے پوچھا کہ آپ کی عدالتوں سے جان کب چھوٹے گی؟ تو عمران خان کا کہنا تھا کہ ابھی تو نہیں چھوٹنے لگی۔
خاتون جج کو دھمکی کے کیس کی سماعت کرنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس محسن اختر کیانی ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار شامل تھے۔
قبل ازیں سماعت میں شرکت کے لیے وکلا ، لا افسران اور صحافیوں کا کمرہ عدالت میں داخلہ انٹری پاس سے مشروط کیا گیا تھا جب کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایت پر عدالت کے پریس روم میں اسپیکرز نصب کیے گئے تھے، تاکہ کیس کی کارروائی کی آڈیو پریس روم میں براہ راست سنی جاسکے گی۔ علاوہ ازیں بار روم میں بھی خصوصی اسپیکرز نصب کیے گئے تھے، جس کا مقصد کمرہ عدالت میں رش کم کرنا تھا۔
کیس کی سماعت سے پہلے ہی ہائی کورٹ کے اندر اور باہر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے جب کہ گزشتہ شب ہی سے حکومت کی جانب سے کسی ممکنہ ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے سکیورٹی سخت کردی گئی تھی جس کے تحت اہم راستوں اور حساس مقامات پر سکیورٹی کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ خاتون جج کو دھمکی پر توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے دونوں جواب غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے اُن پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے آج 22 ستمبر کی تاریخ مقرر کی تھی۔