[wp_news_ticker_benaceur_short_code]

اختر مینگل حکومتی اتحاد سے علیحدہ:عمران خان نئے مسائل سے کیسے نمٹیں گے؟

[mashshare]

پوری دُنیا کے ساتھ پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت بھی کورونا مسائل کے بھنور میں بُری طرح پھنسی پڑی ہے ۔ نجات کا کوئی فوری راستہ فی الحال نظر نہیں آ رہا ۔ کورونا وائرس نے پاکستان ایسے غریب اور پسماندہ ملک کی معیشت کا ویسے ہی بھٹہ بٹھا دیا ہے ۔ حالیہ دنوں میں خانصاحب کی حکومت نے جو وفاقی بجٹ پیش کیا ہے ، اس کے اعدادوشمار بھی زبانِ حال سے ہر خاص و عام کو بتا رہے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کا اصل احوال کیا ہے ۔71کھرب روپے کے وفاقی بجٹ میں 37کھرب روپے کا خسارہ پیش کیا گیا ہے ۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سرکاری ملازم بھی رو رہے ہیں اور پرائیویٹ بھی ۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ”عوام کی بہتری کا بجٹ پیش کیا گیا ہے ۔” یہ دعویٰ تو تب درست لگے گا جب عوام اطمینان اورخوشی کا اظہار کرتے نظر آئیں لیکن عوام تو کمر توڑ مہنگائی، بیماری ، مہنگی ادویات ، سرکاری ہسپتالوں میں عدم سہولیات ، آٹا چینی گھی کی قیمتوں میں ہر روز اضافے پر سینہ کوبی کررہے ہیں ۔ ایسے میں وہ عوام کہاں ہیں جن کی ”بہتری” کیلئے یہ بجٹ پیش کیا گیا ہے؟ لگتا ہے اس عوام کو ڈھونڈنے کیلئے دوربین یا خوردبین کا استعمال کرنا پڑے گا ۔ خانصاحب نے دو سال پہلے اقتدار کے تخت پر براجمان ہوتے ہی جن لاکھوں گھروں اور کروڑوں ملازمتوں کا وعدہ فرمایا تھا، دو سال گزرنے کے باوجود اُن کا نام و نشان بھی نظر نہیں آرہا ۔ یوں اپوزیشن کو حکومت کے خلاف واویلا اور پروپیگنڈہ کرنے کے خوب مواقع مل رہے ہیں ۔ پی ٹی آئی سرکار نے ملک میں کرپٹ اور لُٹیرے عناصر پر” آہنی ہاتھ ” ڈالنے کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن یہ وعدہ بھی پورا نہیں ہو سکا ۔ گویا حکومت نے اپنی بیڑی میں خود وٹّے ڈالنے کا اہتمام کیا ہے ۔ عوام پھر اس حکومت سے کیوں خوش اور مطمئن ہوں؟بے کس اور بے زبان عوام بیچارے تو رہے ایک طرف ، اس مرکزی حکومت نے اپنے ”خواص” اور ”اتحادیوں” سے کئے گئے وعدے بھی پورے نہیں کئے ہیں ۔ ملک بھر میں پھیلے وہ اتحادی جن کی بیساکھیوں کے سہارے یہ حکومت دو سال قبل معرضِ عمل میں لائی گئی تھی ، وہ بھی ناخوش اور نامطمئن ہیں ۔اس کا ایک تازہ اور بڑاثبوت بلوچستان کے نامور سیاستدان جناب اختر جان مینگل کا پارٹی سمیت پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ کئے اتحاد سے نکلنے کا اعلان ہے ۔ یہ اعلان مینگل صاحب نے بجٹ کی تقریر میں ساری دُنیا کے سامنے کرکے در حقیقت خانصاحب کی حکومت پر بم پھینک دیا ہے ۔ اختر جان مینگل کا اپنے چار ساتھیوں سمیت حکومتی اتحاد سے نکلنے کا براہِ راست مطلب و معنی یہ ہے کہ حکومت کمزور بھی ہُوئی ہے اور اُس پر اُس کے قریبی اتحادیوں کا اعتماد بھی ختم ہو کر رہ گیا ہے ۔ مینگل صاحب کی طرف سے عمران خان حکومت سے راستے جدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت میں گہرا شگاف پڑ گیا ہے ۔ خانصاحب کے پاس اگرچہ حکومت کرنے کیلئے اپنے ووٹوں کے علاوہ 10اتحادیوں کے ووٹ بھی ہیں اور بظاہر خطرے کی کوئی فوری بات بھی نہیں ہے لیکن بلوچستان کے مشہور سیاستدان اختر جان مینگل کو ناراض کرکے حکومت نے کسی اچھی حکمتِ عملی اور بہترین سیاست کاری کا ثبوت نہیں دیا ہے ۔حکومت کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ اپنے ہمنواؤں اور ہم نظر ساتھیوں کو ہر طریقے سے اپنے ساتھ جوڑے رکھنا ۔ اتحادی حکومت میں حکمران جماعت کا تکبر اور غرور نہیں چلتا ۔ اور اگر حزبِ اقتدار کا لیڈر ہی اپنے کسی زعم میں مبتلا رہے تو حکومت کا بھٹہ تو کسی بھی وقت بیٹھ سکتا ہے ۔ مینگل صاحب کے اتحاد سے نکلنے کے بعد حکومت کے وجود پر لرزہ طاری ہے ۔تازہ واقعہ کا نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ اپوزیشن والے حکمران جماعت سے نئے سرے سے اعتماد کا ووٹ لینے کا مطالبہ کرتے بھی سنائی دینے لگے ہیں ۔ یقیناً قومی اسمبلی سے نئے سرے سے اعتماد کا ووٹ لینا عمران خان کیلئے کارِ دشوار ہوگا ۔ مینگل صاحب کے حکومتی اتحاد سے نکلنے کے بعد بلوچستان میں پی ٹی آئی کی صوبائی اتحادی حکومت کی چُولیں بھی ہل سکتی ہیں ۔ قاف لیگ بھی خانصاحب سے پوری طرح مطمئن نہیں ہے ۔ قاف لیگ کے ممتاز رکن قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چودھری پرویز الٰہی کے صاحبزادے چودھری مونس الٰہی وزیر اعظم بارے جو بیان دے چکے ہیں ، اُس کی بازگشت ابھی ختم نہیں ہُوئی ہے ۔ کراچی سے ایم کیو ایم بھی عمران خان سے دُور ہو چکی ہے ۔ اُس کے ایک وزیر کا حکومت سے ناراض ہو کر مستعفی ہونا ابھی تک مرکزی حکومت کے سر پر تلوار بن کر لٹک رہا ہے ۔گویا کہا جا سکتا ہے کہ اختر مینگل کا حکومتی اتحاد کو خیرباد کہنا عمران خان کیلئے سنگین سیاسی بحرانوں کا سبب بن سکتا ہے ۔اس بات کے امکانات بھی ہیں کہ ماضی قریب کی طرح اختر مینگل صاحب پھر حکومتی شخصیات سے جپھی ڈال کر مان جائیں لیکن فی الحال اس واقعہ نے حکومتی ایوانوں میں تھر تھلی مچا رکھی ہے ۔ ایسے میں تو چاہئے تھا کہ حکومت خود بھی محتاط ہو جاتی اور اس کے وزرا بھی ۔ ایسا مگر ہو نہیں رہا ۔ اس کی تازہ ترین مثال پنجاب میں وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کا دھماکہ خیز بیان ہے ۔پنجاب میں کورونا وائرس جس تیزی سے تباہیاں پھیلا رہا ہے اور حکومت اس کے سامنے جس بُری طرح گھٹنے ٹیکتی نظر آ رہی ہے ، اس پیش منظر میں ڈاکٹر یاسمین راشد کا ایک معروف نجی ٹی وی پر آ کر لاہوریوں کو ”جاہل” قرار دینا آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہے ۔اس بیان پر عوام کی طرف سے سخت ردِ عمل آیا ہے تو موصوفہ نے معذرتیں کرنی شروع کر دی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ وہ لاہورئیے جنہوں نے پی ٹی آئی کی صوبائی وزیر ڈاکٹر یاسمین راشد کو ہزاروں ووٹ دئیے، کیا وہ آج ”جاہل” ہو گئے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے ووٹروں کی دل آزاری بھی کی ہے اور اُن لاہوریوں کی بھی جنہوں نے نون لیگ کے مقابلے میں کئی پی ٹی آئی سیاستدانوں کو صوبائی اور قومی اسمبلی کے رکن بھی بنایا ہے ۔ ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ نے اپنی بے احتیاطی سے عمران خان کی مرکزی اور صوبائی حکومت کو سخت نقصان پہنچایا ہے ۔ اُن کا احتساب لازم ہے ۔
رخصت ہونے والوں کیلئے دعائے خیر: گذشتہ ہفتے ہمارے بہت عزیز دوستوں کے اقربا، معروف فنکار اور کئی روحانی شخصیات ہمیں داغِ مفارقت دے گئیں ۔ جانے والوں کا غم تو نہیں مٹ سکتا لیکن ہم ان کیلئے مغفرت اور بخشش کی دعا تو کر سکتے ہیں ۔ اپنے خالقِ حقیقی کے پاس اپنے مقررہ وقت پر پہنچنے والوں کیلئے دعائے مغفرت ہی سب سے بڑا تحفہ کہلاتا ہے کہ مرنے والے بہرحال ہماری دعاؤں کے محتاج اور منتظر رہتے ہیں ۔یہ خبر بڑے کرب اور غم کے ساتھ ملک بھر میں سُنی گئی ہے کہ وطنِ عزیز کے نامور کمپیئر، براڈ کاسٹر ، بے مثل اداکار، اعلیٰ درجے کے شاعر اور سابق رکن قومیِ اسمبلی جناب طارق عزیزوفات پا گئے ہیں ۔ اُنہوں نے جب موت کو لبیک کہا ہے ، اُن کی عمر 84برس تھی ۔طارق عزیز صاحب نے بھرپور زندگی گزاری اور کامیاب رہے ۔ پنجابی زبان کے وہ قادرالکلام شاعر تھے اور بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے ۔ ساٹھ اور ستر کے عشرے میں اُنہوں نے جن فلموں میں کام کیا ، وہ اب کلاسیک کا درجہ رکھتی ہیں ۔بلا شبہ وہ بلا کے فطری اداکار تھے ۔ اُنہوں نے اپنی اداکاری کا لوہا اُس وقت منوایا جب ہماری فلمی دُنیا کے اُفق پر محمد علی اور وحید مراد ایسے دلکش اور زبردست اداکاروں کا طوطی بول رہا تھا۔ طارق عزیز نے محنت سے کام کیا اور نامور ہُوئے ۔ اُن کی پہچان اور تشخص مگر پی ٹی وی کا مشہور کوئز پروگرام ”نیلام گھر” بنا جس نے اُنہیں بے مثل بنا دیا ۔ اُن کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ چاردہائیوں تک اُن کا نام اور اُن کی گرجدار آواز ہر گھر میں گونجتی رہی ۔ لاریب طارق عزیز پاکستان سے گہری محبت رکھنے والے فنکاروں میں سے ایک تھے ۔اُن کے پروگرام میں شریک ہونا بجائے خود ایک اعزاز تھا۔اُنہوں نے اپنے فن کے ذریعے سیاست میں بھی قدم رکھا اور نون لیگ کے پلیٹ فارم سے رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہُوئے ۔انتخابات میں اُنہوں نے آج کے وزیر اعظم عمران خان کو ہرایا تھا۔بلا شبہ طارق عزیز اپنے فن کی بدولت ہمارے ہیرو تھے ۔ وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں ایک وطن دوست ہیرو ہی کی طرح زندہ رہیں گے ۔ اللہ کریم اُن کی خطائیں معاف فرمائے ۔ اسی ہفتہ گزراں کے دوران پنجاب کی معروف اور محبوب روحانی شخصیت سید پیر کبیر علی شاہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلا لیا ۔ شاہ صاحب ایسی عظیم اور روحانی ہستی کا بچھڑ جانا ہم سب کا نقصان ہے ۔ بلا شبہ وہ ایک نیک بزرگ ، پاکستان سے محبت کرنے والی شخصیت، حضور نبی کریمۖ کے سچے عاشق اور ایک بڑے گدی نشین تھے ۔ لاکھوں لوگوں نے پیر کبیر علی شاہ صاحب آف چورہ شریف سے فیض حاصل کیا ۔ ہمارا تو یقین ہے کہ اللہ کے پاس پہنچنے کے باوجود اُن کی فیض رساں شخصیت کا فیض جاری ہے ۔ شاہ صاحب جس محبت اور شوق سے درود شریف اور نعت مبارک کی مجالس برپا کرتے اور دوستوں کی سجائی محافل میں ذوق و شوق سے شرکت فرماتے ،یہ حضورۖ سے اُن کی سچی محبت کی ایک دلیل ہے ۔ اُن کا آستانہ عالیہ بھی ہمیشہ ایسی پاکیزہ مجالس سے گونجتا رہتا تھا۔ سید کبیر علی شاہ صاحب دامت برکاتہ نے جس عزیمت اور شوق سے موت کو لبیک کہا ہے ، کاش ایسی موت ہر مردِ مومن اور مسلمان کا نصیب بنے ۔ہماری دعا ہے کہ اللہ کریم اُنہیں جنت المعلیٰ میں جگہ عطا فرمائے ۔آمین
ایسے ہی گھمبیر ہفتے کے دوران لاہور کے ممتاز ترین اور محترم عالمِ دین ڈاکٹر راغب نعیمی صاحب کے چچا جناب محمد تاجور نعیمی بھی جنت مکانی ہو گئے ۔وہ کچھ عرصے سے سرطان کے مہلک مرض میں مبتلا تھے لیکن اُنہوں نے بہادری اور ایمانی طاقت سے اس بیماری کا مقابلہ کیا۔ محمد تاجور نعیمی صاحب مرحوم گڑھی شاہو کی عالمی شہرت یافتہ دینی درسگاہ ، جامعہ نعیمیہ، کے بانی حضرت مولانا مفتی محمد حسین نعیمی صاحب علیہ رحمہ (جو رحمت علی رازی کے معتبر اور درینہ دوست تھے) کے صاحبزادے اور شہید ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب کے برادرِ خورد تھے۔ وہ معروف معنوں میں کوئی بڑے عالمِ دین یا کسی بڑے مدرسے کے منتظم تو نہیں تھے لیکن ہمارے لئے یہ تعلق ہی کافی ہے کہ محمد تاجور نعیمی صاحب لاہور کی ایک وقیع دینی درسگاہ کے بانی کے بیٹے ، ایک شہید و بلند پایہ عالمِ دین کے بھائی اور ایک عالمی شہرت یافتہ دینی سکالر بھتیجے کے چچا تھے ۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے ۔آمین ، ثم آمین ۔
اِسی ہفتے ہمارے بزرگ و شفیق دوست اور رحمت علی رازی صاحب کے قدیمی اور جگری دوست پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل صاحب کی ہمشیرہ بھی اپنے اللہ کے پاس چلی گئیں ۔ ہر اچھے اور مخلص بھائی کی طرح پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل صاحب بھی اپنی ہمشیرہ محترمہ کے چلے جانے پر بجا طور پر غمزدہ اور دلگیر ہوں گے ۔ ہم اور ہمارے ادارے کا ہر رکن اُن کے اس غم اور دکھ میں برابر کا شریک ہے ۔ ہم سب اجتماعی طور پر پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل صاحب کی ہمشیرہ مرحومہ کی بخشش اور مغفرت کی دعا کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب خود بھی ماشاء اللہ نیک بندے ہیں ۔ اُن کا اوڑھنا بچھونا خالصتاً انسانوں اور دین کی خدمت ہے ۔ ہم سب دست بہ دعا ہیں: یا الٰہی ، اُن کی ہمشیرہ محترمہ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرما ۔ آمین ۔ہمارے عزیز واقارب اور دوست احباب موت کے بلاوے پر ہمیشہ کیلئے ہم سے جدا ہو جاتے ہیں لیکن وہ ہماری یادوں سے محو نہیں ہوتے ۔ ہم اُنہیں یاد کرتے رہتے ہیں ۔ اُن کی یاد دراصل ہمیں موت کی تیاری کی یاددلاتی رہتی ہے کہ ایک دن ہمیں بھی اُسی اندھیری کوٹھڑی میں ابدی نیند سوجانا ہے ۔
رواں ہفتے چودھری نذیر احمد صاحب بھی اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ اللہ تعالیٰ سے اُن کی بخشش اور مغفرت کیلئے دعا گو ہُوں ۔ چودھری نذیر صاحب مرحوم کی رخصتی اسلئے بھی میرے لئے بڑا نقصان ہے کہ وہ والد مرحوم قبلہ رحمت علی رازی صاحب کے نہائت قریبی ، معتمد اور دیرینہ دوست تھے ۔ والد صاحب مرحوم اور چودھری نذیر مرحوم کی دوستی اسقدر زبردست تھی کہ نذیر صاحب کا نام روزنامہ ”طاقت” کی پرنٹ لائن پر بھی شائع ہوتا تھا ۔ یہ ہم سب کے لئے اعزاز تھا ۔ ہماری اخباری دُنیا میں بعض لوگوں نے پرنٹ لائن پر اُن کے نام کی اشاعت پر بلاوجہ اعتراض بھی کیا لیکن رحمت علی رازی صاحب نے یہ نام ختم نہیں کیا ۔ رازی صاحب کی رحلت کے بعد بھی یہ نام بدستور چھپتا رہا ۔ یہ میرے لئے محبت اور تعاون کی ایک نشانی تھے ۔ چودھری نذیر احمد صاحب پورے پنجاب میں محنت کشوں یعنی اخبار فروشوں کے متفقہ لیڈر تھے اور ایک بڑے لیڈر ۔ اُنہوں نے ثابت بھی کر دکھایا کہ وہ اس لیڈر شپ کے مستحق بھی ہیں ۔ میری ہر جگہ رہنمائی فرماتے رہے ۔ آخری دَم تک اُنہوں نے میرا ساتھ نبھایا ۔ والد صاحب کی پہلی برسی ( جو ابھی15جون کو منائی گئی ہے) پر اُن کا محبت و خلوص سے بھرا پیغام ”طاقت” میں شائع ہُوا ۔چنگے بھلے اور صحتمند تھے ۔اندازہ تک نہیں تھا کہ وہ ہمیں یوں اچانک داغِ مفارقت دے جائیں گے لیکن اللہ کے حکم کے سامنے کون دَم مارنے کی مجال رکھتا ہے؟ جب اُس کا حکم آتا ہے ، سر جھکانا پڑتا ہے ۔ سو، جب یہ حکم چودھری نذیر احمد صاحب مرحوم کے نام پر آیا ، اُنہوں نے ایک سچے مسلمان کی طرح سر جھکا دیا اور اپنے خالق کے حضور حاضر ہو گئے ۔سچی بات یہ ہے کہ وہ ایک بہترین اور کھرے انسان تھے ۔ دوستوں کے ساتھ کھڑے ہونے اور عہد نبھانے والے ۔ اُنہوں نے اپنے عمل اور اقدامات سے ثابت کیا کہ وہ مزدور دوست تھے اور مزدوروں کے حقوق کے سچے علمبردار بھی ۔ مجھے یقین ہے کہ اُن کے رحلت و رخصتی کے بعد قیادت کا یہ جھنڈا اُن کے برادرخورد چودھری عاشق صاحب اُسی ہمت اور قوت سے اُٹھائیں گے جس ہمت اور قوت کے ساتھ چودھری نذیر احمد صاحب مرحوم عمر بھر اُٹھائے رہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ چودھری نذیر صاحب مرحوم کو جنت سے نوازے اور چودھری عاشق صاحب’ چوہدری شکیل اورپسماندگان کو یہ دکھ برداشت کرنے کی ہمت عطا فرمائے ۔ آمین ۔ یہ سطور لکھ رہا ہُوں تو جناب سہیل احمد المعروف” عزیزی ” بھی یاد آ گئے ہیں ۔ اُن کے سسر بھی چند دن پہلے اپنے خالقِ حقیقی کے پاس چلے گئے ۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے اور سہیل احمد صاحب کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی طاقت بخشے ۔ ہم اور ہمارے ادارے کے سبھی ارکان سہیل احمد صاحب کے اس غم میں برابر کے شریک ہیں ۔ آمین ثم آمین


اپنی راہےکااظہار کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.