[wp_news_ticker_benaceur_short_code]

افغان صحافیوں سے عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملاقاتیں

[mashshare]

برادر ہمسایہ اسلامی ملک افغانستان کے حالات جس تیزی اور شدت سے بدل رہے ہیں، پاکستان اور پاکستان کے سبھی ہمسایہ ممالک کو ان حالات سے سخت تشویش لاحق ہے ۔ کئی خدشات اور خطرات کے بادل اُمڈ رہے ہیں ۔ سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اگر افغانستان میں خانہ جنگی کے بادل چھا گئے ( جس کے امکانات خاصے واضح ہیں) تو اس خانہ جنگی کے براہِ راست اثرات سے پاکستان بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ پاکستان پر پہلے ہی تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کا بہت بڑا بوجھ ہے جسے پاکستان نے پچھلے 40سال سے مسلسل اٹھایا ہُوا ہے ۔ اور اب اگر افغانستان میں پھر سے خانہ جنگی ہوتی ہے تو شدید خدشات ہیں کہ افغان مہاجرین کا ایک بہت بڑا ریلہ پھر پاکستان کی طرف سیلاب بن کر آئے گا۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کے نکلنے کے بعد افغان طالبان کو جس طرح بالا دستی مل رہی ہے ، اس نے حالات کا پانسہ افغان طالبان کی جانب جھکا دیا ہے جبکہ افغان حکومت کے سربراہ صدر اشرف غنی اور اُن کے ساتھی اپنی ناکامیوں کا ملبہ مسلسل پاکستان پر ڈال رہے ہیں اور پاکستان پر شرمناک اور بے بنیاد الزامات بھی لگا رہے ہیں ۔ ان مناظر نے افغانستان میں پاکستان کے مفادات کو سخت زک بھی پہنچائی ہے اور افغان حکومت کی ایما پر بعض افغان دھڑے پاکستان مخالفت میں اندھے ہو رہے ہیں ۔ اور پاکستان کے خلاف کئی افواہیں بھی اُڑائی جارہی ہیں جن کا مقصد فقط یہی ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے خلاف فضا اُبھاری جائے ۔ اس مکروہ دھندے کے عقب میں بھارت کی کارستانیوں کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ مثال کے طور پر 31جولائی2021ء کو یہ افواہ اُڑائی گئی کہ افغانستان میں ایک پاکستانی سفارتکار کو قتل کر دیا گیا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق : افغانستان میں تعینات پاکستان کے سفیر منصور احمد خان نے جمعہ(30جولائی) کو کہا کہ جلال آباد میں پاکستانی قونصل خانے کا تمام عملہ محفوظ ہے اور ان میں سے کسی کو بھی کسی دہشت گرد گروہ نے نشانہ نہیں بنایا۔واضح رہے کہ شدت پسند تنظیموں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے امریکہ میں موجود ایک سائٹ انٹیلی جنس گروپ نے دعویٰ کیا تھا کہ داعش نے مشرقی افغانستان میں پاکستانی قونصل خانے کے ایک ملازم کو قتل کردیا ہے۔تاہم پاکستانی سفیر منصور احمد خان نے” عرب نیوز” سے گفتگو میں اس بات کی تصدیق کی کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔منصور احمد خان نے عرب نیوز سے ٹیلی فونک گفتگو میں کہا:” نہیں، ہمارے اہلکار محفوظ ہیں۔ میں نے اس کی تصدیق جلال آباد میں اپنے قونصل جنرل سے کی ہے۔ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ خبر کیا ہے، لیکن ہمارے قونصل جنرل نے تمام اہلکاروں سے بات کی اور بتایا کہ وہ محفوظ ہیں۔”جلال آباد میں پاکستانی سفارتی مشن کے ساتھ کام کرنے والے ایک عہدیدار نے بھی اسے جعلی خبر قرار دیا۔انہوں نے” عرب نیوز” کو بتایا: ”یہ خبریں جھوٹی ہیں اور جلال آباد میں ہمارا عملہ بالکل ٹھیک ہے۔”(واضح رہے کہ نومبر 2017ء میں ایک پاکستانی سفارت کار نیئر اقبال رانا کو افغانستان کے مشرقی شہر میں ان کی رہائش گاہ کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا)افغانستان کے انہی حالات نے امریکہ کو بھی پریشان کررکھا ہے ۔ خاص طور پر امریکہ کو افغانستان میں سخت شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ اسی پس منظر میں امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے بھارت کا بھی دَورہ کیا ہے تاکہ بھارت کو ساتھ ملانے کی کوشش کی جائے ۔اسی مقصد کی خاطرامریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے گذشتہ دنوں بھارت کا پہلا سرکاری دورہ کیا جہاں انہوں نے وزیراعظم نریندر مودی، وزیر خارجہ ڈاکٹر جے ایس شنکر اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول سے ملاقاتیں کیں۔جمعرات کو اپنا دو روزہ دورہ مکمل کرنے والے بلنکن نے نئی دہلی میں اپنے بھارتی ہم منصب ڈاکٹر ایس جے شنکر اور وزیر اعظم نریندر مودی سے علیحدہ ملاقاتیں کیں۔امریکی وزیر خارجہ نے افغانستان میں پاکستان کے اہم کردار کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو امید ہے کہ اسلام آباد پر امن افغانستان کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا۔بلنکن نے” ٹائمز آف انڈیا” کو انٹرویو میں بتایا: ”پاکستان کا (افغانستان میں) اہم کردار ہے اور ہمیں یقین ہے کہ پاکستان طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائے گا کہ طالبان ملک پر طاقت کے ذریعے قابض نہ ہوں۔”انہوں نے مزید کہا: ”اور اس (پاکستان) کا اثر و رسوخ ہے اور اس نے اپنا کردار ادا کرنا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ وہ اس کو ادا کرے گا۔”لیکن حیرانی کی بات ہے کہ ایک طرف امریکہ بہادر پاکستان سے یہ اُمید رکھتا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنا کردار ادا کرے گا اور دوسری جانب امریکہ ہی کا وزیر خارجہ بھارت جا کر پاکستان کے خلاف سازشوں میں بھی مصروف ہے ۔اس پیش منظر نے پاکستان کے لئے کئی آزمائشی مسائل کھڑے کر دئیے ہیں ۔ ان مسائل کو حل کرنے اور افغان عوام کے اذہان کو صاف کرنے کی نیت سے وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پچھلے ہفتے افغان صحافیوں کے وفد سے تفصیلی ملاقاتیں کی ہیں ۔ پہلے ملاقات عمران خان سے ہُوئی جبکہ دوسری ملاقات 30جولائی2021ء کو سپہ سالارِ پاکستان سے ہُوئی ۔دونوں ملاقاتوں کے احوال کی گونج ہر طرف سنائی دے رہی ہے ۔ یہ ملاقاتیں دراصل افغانستان کے بارے میں پاکستان کی مرکزی سوچ کی عکاس بھی ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان نے درجن سے زائد افغان صحافیوں سے بات چیت کرتے ہُوئے کہا:”امریکی فوج کے انخلا کے بعد پاکستان افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں کا ذمہ دار نہیں۔سب سے پہلے تو یہ کہ طالبان کیا کر رہے ہیں اور کیا نہیں، اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ کو طالبان سے خود پوچھنا چاہیے کیونکہ ہم ان کے ذمہ دار ہیں اور نہ ہی ان کے ترجمان۔ آپ کے پاس دو آپشن ہیں۔ 20 سال سے افغان مسئلے کا فوجی حل نکالنے کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوئی۔اب آپ کو چننا پڑے گا۔ آیا آپ امریکہ کی طرح اس مسئلے کا فوجی حل نکالنے کی کوشش جاری رکھیں یا پھر دوسرا حل طالبان اور حکومت کے درمیان سیاسی سمجھوتے کے بعد ایک حکومت تشکیل دینا ہے، جو واحد حل ہے۔ ہم صرف افغانستان میں امن چاہتے ہیں اور ہماری دلچسپی صرف امن میں ہے۔ پاکستان میں 30 لاکھ افغان پناہ گزین ہیں جو تقریباً تمام ہی پشتون ہیں اور ان میں سے اکثر کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہیں۔ایک ایسے وقت پر جب روزانہ 30 ہزار لوگ افغانستان سے یہاں آ رہے ہیں، پاکستان کیسے نظر رکھ سکتا ہے کہ وہاں کون لڑ رہا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ پناہ گزین کیمپوں میں چیک کریں کہ کون طالبان کا ہمدرد ہے اور کون نہیں”۔وزیر اعظم عمران خان نے افغان صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسلام آباد میں تعینات افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا پر بھی بات چیت کی اور کہا کہ بدقسمتی سے اس ضمن میں افغان سفیر نے بھی ہمارے اداروں سے تعاون نہیں کیا اور جن ٹیکسیوں پر اس خاتون نے سفر کیا اُن کے اور سفیر کی صاحبزادی کے بیانات بھی آپس میں نہیں ملتے ۔ پاک افغان یوتھ فورم کے وفد سے علیحدہ گفتگو میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا:”بدقسمتی سے افغانستان میں غلط تاثر موجود ہے کہ پاکستان کو عسکری ادارے کنٹرول کرتے ہیں جو سراسر بھارت کا پھیلایا ہوا پروپیگینڈا ہے۔میری حکومت کی خارجہ پالیسی گذشتہ 25 سالوں سے میری پارٹی کے منشور کا حصہ رہی ہے۔ میرا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ افغان مسئلے کا حل عسکری نہیں بلکہ سیاسی طریقے سے ممکن ہے۔پچھلے 15 سالوں سے پارٹی سربراہ کی حیثیت سے اور پچھلے تین سالوں سے حکومت میں رہ کر میں اپنے موقف پر قائم ہوں اور حکومت کو اس موقف پر عسکری اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ پاکستان دنیا میں کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ افغانستان میں امن چاہتا ہے کیونکہ اگر افغانستان میں امن ہوتا ہے تو پاکستان کو وسط ایشیائی ممالک تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔پاکستان نے پہلے امریکہ اور پھر افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے طالبان کو قائل کرنے کے لیے سخت جدوجہد کی۔خطے کا کوئی اور ملک پاکستان کی کوششوں کی برابری کا دعویٰ نہیں کرسکتا، جس کی تائید امریکی نمائندہ خصوصی زالمے خلیل زاد نے بھی کی۔”افغانستان امن عمل میں پاکستان اور بھارت کے اشتراک سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا :” بھارت نے پانچ اگست، 2019 میں اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یک طرفہ طور پر کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کیا۔ جب تک بھارت اپنے پانچ اگست کے اقدام کو واپس نہیں لیتا اور کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال نہیں کرتا ،تب تک بھارت سے بات چیت اور پاکستان کے لیے اس کے سہ فریقی افغان امن عمل میں شمولیت کو قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے بھارت کے ساتھ امن کا خواہاں ہے مگر بھارت امن نہیں چاہتا کیونکہ وہ اس وقت آر ایس ایس کے نظریے کے زیرِ تسلط ہے جو کشمیربھارت میں مسلمانوں، دیگر مذاہب کے ماننے والوں اور اقلیتوں کے ساتھ برا سلوک کر رہے ہیں۔ یہی محرکات بھارت کے ساتھ امن میں بڑی رکاوٹ ہیں”۔جناب عمران خان نے نہائت وضاحت اور فصاحت کے ساتھ افغانستان کے بارے میں اپنی اور حکومتِ پاکستان کی جملہ پالیسیوں بارے دنیا کے سامنے حقائق بھی رکھ دئیے ہیں اور اس میں کوئی ابہام بھی نہیں ہے ۔ پاکستان کے وزیر اعظم کا بیان پوری دنیا کے سامنے آ چکا ہے ۔ اس بیان کو سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ کی مکمل حمائت بھی حاصل ہے اور اس کا عکس ہمیں اُس انٹرویو میں بھی ملتا ہے جو جنرل صاحب نے افغان صحافیوں کے ساتھ کیا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان سے مکالمہ کرنے کے بعد افغان صحافیوں کا یہ درجن بھر وفد جنرل قمر باجوہ سے بھی ملا اور سیر حاصل بات چیت کی ۔ افغان صحافیوں سے جنرل صاحب نے یہ ملاقات راولپنڈی کے جی ایچ کیو میں کی ۔ جنرل صاحب نے اپنے اس انٹرویو میں افغانستان بارے اپنے خیالات کا اظہار یوںکیا:” میڈیا عوامی، سماجی اور ثقافتی رابطوں میں پل کا کردار ادا کرسکتا ہے، میڈیا اور عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ امن دشمنوں کی نشان دہی کرکے انہیں شکست دیں۔ افغانستان میں امن پاکستان کی دلی خواہش ہے، پاکستان اور افغانستان کا امن ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے ۔دشمنوں کو امن عمل متاثر کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، مؤثر بارڈر مینجمنٹ اور سیکیورٹی دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے، دونوں ممالک علاقائی رابطوں کے فروغ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔افغانستان میں پائیدار امن سے خطے میں ترقی ہوگی، پاکـافغان یوتھ فورم سے باہمی رابطوں کو فروغ ملے گا، پاکـافغان نوجوان خطے کا مستقبل اور امن کی امید ہیں۔”آئی ایس پی آر کے مطابق اس موقع پر افغان صحافیوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات اور بات چیت پر ان کا شکریہ ادا کیا اور امن کے لیے پاکستان کی سنجیدہ کوششوں کی تعریف کی۔بیان میں کہا گیا کہ افغان میڈیا کے وفد نے آرمی چیف سے ملاقات کے موقع پر پاکستان کی جانب سے بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کی میزبانی اور ان کا خیال رکھنے پر بھی شکریہ ادا کیا۔مذکورہ بالا دونوں انٹرویوز کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تویہ بات کھلتی ہے کہ افغانستان کے بارے میں پاکستان کو اگرچہ بے حد تشویش ہے لیکن پاکستان کی حکومت اور سیکورٹی اداروں نے افغان بحران سے نمٹنے کیلئے پوری تیاری بھی کررکھی ہے ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اپنے ہمسائے افغانستان کے بارے میں پاکستان کسی غفلت اور غیر ذمہ داری کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا ۔ پاکستان پہلے ہی افغانستان کے حوالے سے اپنی انگلیاں جلائے بیٹھا ہے ۔ اربوں کھربوں روپے کا جو نقصان پاکستان نے اس میدان میں اُٹھایا ہے ، وہ اس کے علاوہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ افغانستان میں پائیدار اور مستقل امن کو فروغ دینے میں پاکستان کی مخلصانہ کوششوں اور مساعی میں برکت عطا فرمائے ۔آمین۔


اپنی راہےکااظہار کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.