ہارون آباد : لاکھوں کی آبادی پر مشتمل واحد ٹی ایچ کیو ماڈل اسپتال ہارون آباد میں سہولیات کا فقدان حکومت تو بدل گئی مگر حالات جوں کے توں ہی ہیں ۔
تفصیلات کے مطا بق ہارون آباد ٹی ایچ کیو اسپتال ہارون آباد جس میں روزانہ کی بنیاد پر پانچ سو سے زائد مریضوں کو چیک کیا جاتا ہے مگر اس میں سہولت نام کی کوئی چیز نہیں ہے ادویات کی کمی ڈاکٹرز اور عملے کی کمی ،سٹاف کی کمی ناقص صفائی ستھرائی،پینے کا پانی تو موجود ہے مگر اردگرد کوڑا کر کٹ کے ڈھیر اور پینے کے پانی کی جگہ ادویات کی بوتلیں اور پانی پینے کے لئے گلاس بھی موجود نہیں ہے یہ اسپتال انتظامیہ کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں لیڈی ڈاکٹر کے کمرے کے باہر پڑ اواش روم کا کمپائونڈاسپتال انتظامیہ کا منہ چڑارہاہے لاکھوں کی آبادی پرمشتمل واحد ٹی ایچ کیو اسپتال میں سہولیات نہ ہو نے سے غریب عوام اور دور و دراز دو سو سے زائد کلو میٹر سفر کر کے آنیوا لے مریضوں کو شدید مشکلات اور پر یشانی کا سامنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ٹی ایچ کیو اسپتال گیٹ پر بارش کا پانی جمع ہوا ہے۔
جو گز رنے والوں کے لئے پر یشانی کاسبب ہے اور گیٹ کے ساتھ بیٹھے سائیکل اسٹینڈزوالوں نے تو ظلم اور بدتمیزی اور غنڈہ گردی کی انتہا ہی کی ہوئی ہے پر یشانی اور دکھ کے عالم میں مر یضوں کے لواحقین کے ساتھ ان کا رویہ نہایت ہی احمقانہ اور بد تمیزی والا ہوتا ہے دس ،بیس روپے کی خاطر نہ مو ٹر سائیکل اور کار کو اندر داخل ہونے دیا جاتا ہے اور نہ باہر آنے دیا جاتا ہے پر یشانی میں آیا مر یض یا تو ان کے ساتھ لڑ پڑتا ہے اور شریف آدمی دس بیس روپے دے کراپنی جان چھڑوا لیتا ہے ۔
اس حوالے سے میڈیا نمائندگان نے جب وہاں پر موجود مریضوں سے پوچھا تو شکایت کے انبار لگ گئے ۔مراد نہر سے آئے ہوئے مریض نے دھائی دیتے ہوئے کہاکہ ہم ڈلیوری کے لئے آئے ہیں اسٹینڈ والے پر یشان کرتے ہیں جتنی دفعہ موٹر سائیکل باہر لے جاتے ہیں پیسے مانگتے ہیں ہم نے بار بار جانا آنا ہوتا ہے اور ڈاکٹر زحضرات ہسپتال میں میڈیسن نہ ہونے کا بہانہ بنا کر باہر میڈیکل سٹور کی دوائی لکھ دیتے ہیں مجبورا دویات خرید نے کے لئے باہر جانا پڑتا ہے واپس آکر سائیکل اسٹینڈ والوں کو موٹر سائیکل کھڑا کر نے کے لئے رقم ادا کر نی پڑتی ہے ۔،ہدایت نامی شخص کا کہنا تھا کہ میں اپنے ابا جی کو چیک کروانے کے لئے آیا تو ہڈیوں کا ڈاکٹر گیارہ بجے آتا ہے میں مزدور ہوں گیارہ بجے تک انتظار کرتا ہوں میری مزدوری کا دن ختم ہو جاتا ہے ہڈی کا ڈاکٹر روزانہ گیارہ بجے آتا ہے ، آصف نامی شخص کا کہنا تھا کہ ڈاکٹروں نے صرف اور صرف بہاولپور کی ڈگری پڑھی ہوئی ہے ہر مریض کو بہاولپور ریفر کر دیا جاتا ہے اپنی جان چھڑوا کر دور چار سو کلو میٹر ریفر کر دیتے ہیں اور اگر ادھر داخل کروا یا جائے تو وراڈز میں سٹاف کے رویہ نہایت ہی غیر اخلاقانہ ہو تا ہے بات بات پر مریضو ں کے لواحقین کیساتھ الجھ جاتے ہیں ان کی شکایت موجودہ انچارج کو کرو تو مریض کے الٹے دن شروع ہو جاتیں ہیں ۔
پھر اس جوابی کاروائی میں ساری ادویات باہر سے منگواتے ہیں اور بات بات پر طنز کرتے ہیں اور کہتے ہیں اور کرو شکایت ،وار ڈ کے باہر ایک اور مریض کے لواحقین نے بتایا کہ اسپتال میں سہولیات کے ساتھ ساتھ اسٹینڈ والوں کی غنڈا گردی بھی انتہا کی ہے اور اسپتال میں ایکسرے کے لئے فلمیں بھی موجود نہیں ہیں اور ایمر جنسی کے لئے ایکسرے کی سہولت نہ ہے ایکسر ے کے لئے عملہ نا کافی ہے اسی طر ح وہاں پر موجود ایک مریضہ کا کہنا تھا کہ شام اور رات کے اوقات میں لیبارٹری کی سہولت کو اسپتال انتظامیہ نے بند کیا ہوا ہے جس سے ہمیں شدید پر یشانی کاسامنا ہے سارے ٹیسٹ باہرسے کروا کر لانا پڑتے ہیں اور اسپتال میں بھی اگر کروائیں تو وہ بھی پیسے اتنے لے لیتے ہیں کہ اسپتال میں سہولیات محض دعوی نظر آتی ہے یا پھر وہ اپنی من پسند لیبارٹری پر بھجوا دیتے ہیں شہر بھر سے عوامی سماجی شخصیات نے وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار اور صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ سمیت دیگراعلی حکام سے اس صورت حال کا نوٹس لینے کا مطا لبہ کیا ہے اور سکر یٹری پنجاب محکمہ صحت سے اسپتال میں عملے کی کمی کو پورا کر نے کی بھی درخواست کی ہے۔