واشنگٹن: امریکا نے واضح کیا ہے کہ ہر ملک روسی تیل درآمد کرنے کے لیے آزاد ہے جیسے بھارت نے روس سے تیل خریدا۔
ڈان ڈاٹ کام کے مطابق امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ دوسرے ممالک پر روس سے پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات پر فی الحال پابندی نہیں ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان سے یہ پوچھا گیا تھا کہ کیا پاکستان اور دیگر ممالک بھی اسی طرح روسی تیل درآمد کر سکتے ہیں جیسے بھارت کر رہا ہے۔
جس کے جواب میں انھوں نے مزید کہا کہ امریکا واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ ہر ملک کو روس سے تیل کی درآمدات کا فیصلہ اپنے اپنے حالات کو دیکھ کر کرنا ہوگا۔
تاہم ترجمان محکمہ خارجہ نے نشاندہی کی کہ امریکی محکمہ خزانہ پہلے ہی ایک عام لائسنس جاری کر چکا ہے جو منظور شدہ روسی بینکوں کے ساتھ تیل کی خریداری کے لیے لین دین کی اجازت دیتا ہے لہذا ایسی ادائیگیاں جاری رہ سکتی ہیں۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ امریکی پابندیاں جو سال کے آغاز میں یوکرین پر روسی حملے کے بعد لگیں ان میں توانائی، تجارت اور نقل و حمل سے متعلق ادائیگیوں کے طریقہ کار میں تبدیلی کرتے ہوئے قدرے سختیاں کی گئی تھیں۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق ان پابندیوں کا مقصد روس کو تیل برآمد کرنے والا ایک بڑا فروخت کنندہ بنانے سے روکنا تھا۔
ترجمان امریکی وزارت خارجہ نے یہ بھی بتایا کہ بھارت اور یورپی اتحادیوں سمیت شراکت داروں کے ساتھ بات چیت جاری ہے تاکہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی یوکرین پر جارحیت سے عالمی منڈیوں پر پڑنے والے اثرات کو کم کیا جا سکے۔
خیال رہے کہ بھارتی میڈیا نے پہلے دن میں اطلاع دی تھی کہ روس نے تیل برآمد کرنے میں روایتی فروخت کنندگان سعودی عرب اور عراق کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ G7 ممالک کے گروپ کی طرف سے تجویز کردہ منصوبے کے برعکس بھارت نے تیل کی خریداری جاری رکھی ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ بھارت میں اب روسی تیل کُل خام درآمدات کا 22 فیصد ہے جب کہ عراق کی 20.5 اور سعودی عرب کی 16 فیصد سے زائد ہے۔
]]>اسلام آباد: پاکستان اور چین نے سی پیک پر کام کرنے والے چینی باشندوں کی آؤٹ ڈورنقل وحرکت کے دوران سیکیورٹی بہتربنانے کیلیے بُلٹ پروف گاڑیاں استعمال کرنے ، قانون نافذکرنے والے اداروں اور تفتیش کاروں کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے پر اتفاق کیا ہے۔
پاکستان اور چین کی جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی (جے سی سی ) کے 11 ویں اجلاس میں اس معاملے پر باہمی تبادلہ خیال کیا گیا جس کے مطابق چین کے تعاون سے لگائے جانیوالے منصوبوں پرکام کرنے والے چینی شہریوں کی تمام آؤٹ ڈورسرگرمیوں کیلیے بلٹ پروٹ گاڑیاں استعمال کی جائیں گی۔
خلاف توقع اجلاس کے منٹس پر وزیراعظم شہبازشریف کے دورہ بیجنگ کے دوران دستخط نہیں کیے گئے تھے۔ماضی میں ایسے اجلاسوں کے منٹس پر فوری دستخط کردیئے جاتے تھے۔
وفاقی وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال کاکہنا تھا کہ ان پر وزیراعظم کے دورہ چین کے دوران دستخط کردیئے جائیں گے، 24 گھنٹے کے مختصر دورہ کے دوران ان منٹس کے علاوہ مفاہمت کی بعض یادداشتوں پر بھی دستخط نہ ہوسکے تھے۔
احسن اقبال نے بتایا کہ وزیراعظم کے 24 گھنٹے کے اس دورہ کے دوران 17 اجلاس ہوئے جن کی وجہ سے بعض اہم معاہدوں کیلیے وقت نہیں بچا۔انھوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستانی وفد جلد چین جا کر ان معاہدوں پر دستخط کردے گا۔
سی پیک ڈرافٹ کے منٹس سے پتہ چلتا ہے کہ چینی قیادت نے پاکستان کے سکیورٹی اداروں کی استعداد کار بڑھانے کیلیے آلات فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔چینی شہریوں کے ساتھ پیش آنے والے مجرمانہ واقعات کی تفتیش کیلیے نیشنل فرانزک سائنس ایجنسی کی استعداد کارکوبھی جدیدخطوط پر استوار کیا جائے گا۔
پاکستانی حکومت نے چین سے فرانزک سائنس ایجنسی کی استعداد بڑھانے کی درخواست کی تھی۔چینی حکومت نے پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز اور ایل ای ایز کی تربیت کیلیے تربیتی مرکز قائم کرنے کا بھی عزم ظاہرکیا ہے،ماضی میں چینی شہریوں پر ہونے والے دہشتگردانہ حملوں کی وجہ سے سی پیک کے منصوبوں کی تکمیل کو سخت دھچکا لگتا رہا،جس پر چین کا پاکستان سے اپنے شہریوں کے تحفظ کا مطالبہ سامنے آتا رہا۔
اجلاس میں پاکستان نے یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر نان کوریڈور پراجیکٹس کے لیے بھی سیکیورٹی کو مربوط کرنے کے لیے ایک علیحدہ جوائنٹ ورکنگ گروپ قائم کیا جا سکتا ہے۔
]]>اسلام آباد: حکومت ہائی گریڈ پیٹرول پر 17فیصد سیلز ٹیکس نافذ کرسکتی ہے، علاوہ ازیں کسٹم ڈیوٹیز کی مد میں ہدف کے مقابلے میں 100 ارب روپے کے متوقع شارٹ فال کو پورا کرنے کیلئے درآمدات پر مزید ٹیکس عائد کرنے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق ٹیکس حکام نے اس شارٹ فال کو پورا کرنے کے لیے حال ہی میں حکومت کے ساتھ ممکنہ اقدامات شیئر کیے ہیں، جن میں ان اشیاء کی درآمد پر ٹیکس عائد کرنا جو اس وقت ڈیوٹی فری ہیں اور کسٹم ڈیوٹیز کی شرح میں اضافہ کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں، ان اقدامات کے ذریعے 60 ارب روپے سے زائد رقم ٹیکسوں کے ذریعے حاصل ہونے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔
درآمدات میں کمی کے نتیجے میں ریونیو گھٹ جانے کی صورتحال سے نمٹنے کیلیے ریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح میں کمی کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔ تاہم ذرائع کے مطابق نئی اضافی کسٹم ڈیوٹیاں عائد کرنے کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اضافی کسٹم ڈیوٹیز، اسٹینڈرڈ کسٹم ڈیوٹی کی شرح سے بالاتر نافذ کی جاتی ہیں تاکہ ٹیکس آمدنی میں اضافہ ہوسکے۔
وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار جلد ہی ایک اجلاس کی صدارت کریں گے، جس میں ان تجاویز پر غور کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ہائی آکٹین بلینڈنگ کمپوننٹ (ایچ او بی سی) پر 17فیصد سیلز ٹیکس نافذ کرنے کی تجویز کافی آگے بڑھ چکی ہے، جس کا مقصد رواں مالی سال کے بقیہ حصے میں 6ارب روپیکی اضافی آمدنی حاصل کرنا ہے۔
یاد رہے کہ حکومت پہلے ہی ایچ او بی سی اور ریگولر پیٹرول پر 50روپے فی لیٹر ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ ایچ او بی سی کی 97آکٹین کی قیمت پہلے ہی ریگولر 92آکٹین پیٹرول کے مقابلے میں 45 روپے فی لیٹر زیادہ ہے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ پیٹرولیم مصنوعات پر عائد 50 روپے فی لیٹر لیوی کے علاوہ 17فیصد سیلز ٹیکس بھی نافذ کرے۔ اگر ہائی کوالٹی پیٹرول پر 17فیصد جی ایس ٹی کے نفاذ کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو یہ اس مطالبے کی تکمیل کی جانب پہلا قدم ہوگا۔حال ہی میں آئی ایم ایف نے پاکستان سے 600 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کرنے کے لیے بھی کہا ہے تاکہ ایف بی آر کا 9.5 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کا ہدف حاصل کیا جاسکے۔
ایف بی آر اکتوبر میں اپنے 534 ارب روپے کے ٹیکس ہدف کو حاصل نہ کرسکا اور محصولات کا حجم ہدف کے مقابلے میں 22 ارب روپے کم رہا، جس کی سب سے بڑی وجہ درآمدات میں کمی تھی۔ ایف بی آر کسٹم ڈیوٹیز کا ہدف پورا کرنے میں بھی ناکام رہا، مالی سال کے ابتدائی چار ماہ کے دوران 343 ارب کے ہدف کے مقابلے میں صرف 302 ارب روپے کسٹم ڈیوٹیز کی مد میں حاصل ہوئے۔حکومت نے کسٹم ڈیوٹیز کی مد میں 1150ارب روپے جمع کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے لیکن کسٹم ذرائع کے مطابق رواں مالی سال کے دوران شاید ہدف کے مقابلے میں 100ارب روپے کم جمع ہو پائیں گے۔
اس شارٹ فال کو پورا کرنے کیلیے جو سب سے اہم تجویز دی گئی ہے، وہ ان اشیاء پر 2 فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی عائد کرنے کی ہے، جن پر اس وقت کسٹم ڈیوٹی زیرو ہے بشمول ان اشیاء کے جو فری ٹریڈ ایگریمنٹس کے تحت درآمد کی جاتی ہیں۔ اگر صرف یہی ایک تجویز مان لی جاتی ہے تو اس سے 35ارب روپے کی آمدنی حاصل ہوسکے گی۔ رواں مالی سال کے ابتدائی چار مہینوں کے دوران درآمدات کی مالیت 21 ارب ڈالر رہی لیکن ان میں سے 47 فیصد یعنی تقریبا 10ارب ڈالر کی درآمدات ڈیوٹی فری تھیں۔
]]>اسلام آباد: اٹک میں تیل کا کنواں دریافت ہوا ہے جس سے یومیہ 882 بیرل تیل اور 0.93 ایم ایم ایس سی ایف ڈی گیس حاصل ہوگی۔
آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے ترجمان کے مطابق او جی ڈی سی ایل کو پنجاب میں تیل کی دریافت میں اہم کامیابی ہوئی ہے، تیل کی دریافت ضلع اٹک میں کمپنی آپریٹڈ ویل توت ڈیپ ون سے ہوئی۔
ترجمان کے مطابق 5545 میٹر گہرے توت ڈیپ ون ویل پر کام کا آغاز 25 دسمبر 2020ء کو ہوا تھا، کنویں سے یومیہ 882 بیرل تیل اور 0.93 ایم ایم ایس سی ایف ڈی گیس حاصل ہوگی، دریافت سے کمپنی کے ہائیڈروکاربن وسائل میں اضافہ ہوگا۔
اوگرا کے ترجمان نے مزید کہا ہے کہ دریافت تیل و گیس کے حوالے سے پاکستان کے مقامی وسائل پر انحصار میں مثبت پیش رفت ثابت ہوگی۔
]]>اسلام آباد: محصولات کی پیداوار میں صحت مند رفتار کے باوجود آئی ایم ایف نے پاکستان سے تقریباً 600 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے اور انسداد بدعنوانی ٹاسک فورس قائم کرنے پر پھر زور دیا ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق یہ مطالبات پاکستان میں فنڈ کے مشن چیف ناتھن پورٹر نے واشنگٹن میں حالیہ بات چیت کے دوران نصف درجن دیگر شرائط کے ساتھ پاکستانی حکام کے سامنے رکھے تھے۔
ذرائع نے نجی میڈیا کو بتایا اس معاملے پر پروگرام کے جائزہ مذاکرات کے اگلے دور میں بات کی جائے گی جو نومبر میں متوقع ہے۔
آئی ایم ایف کا خیال ہے رواں مالی سال میں افراط زر کی وجہ سے معیشت کی قریباً 25 فیصد برائے نام نمو کے باعث ٹیکس سے مجموعی ملکی پیداوار(جی ڈی پی ) کا تناسب طے شدہ سطح سے نیچے آجائے گا چاہے ایف بی آر اپنا سالانہ ہدف 7.470 کھرب روپے حاصل کر لے۔
حکومت نے بجٹ کے وقت 11.5 فیصد کی اوسط افراط زر کی شرح اور 5 فیصد کی اقتصادی ترقی کی شرح کی بنیاد پر جی ڈی پی کے حجم کا تخمینہ 78 کھرب روپے لگایا تھا۔
7.470 کھرب روپے کا سالانہ ٹیکس ہدف جی ڈی پی کے قریباً 9.6 فیصد کے برابر ہے تاہم مختلف انتظامی اقدامات، روپے کی قدر میں کمی، سیلاب اور خوراک کی فراہمی کے جھٹکوں کی وجہ سے اوسطا مہنگائی کا تخمینہ اب 23 فیصد اور جی ڈی پی کی شرح نمو قریباً 2 فیصد ہے۔
مہنگائی میں اضافے کے بعد، رواں مالی سال کیلئے جی ڈی پی کا تخمینہ 83 کھرب روپے لگایا گیا ہے۔ یہ ایف بی آر کے 7.470 کھرب روپے کے سالانہ ہدف کو پہنچنے کے باوجود ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب قریباً 8.9 فیصد تک لے آئے گا۔
آئی ایم ایف نے اندازہ لگایا ہے میکرو اکنامک فریم ورک کے اہداف پر قائم رہنے کیلئے پاکستان کو جی ڈی پی کے 0.75 فیصد کے برابر اضافی مالی اقدامات کرنا پڑ سکتے ہیں جو 600 ارب روپے سے زیادہ بنتا ہے۔
ایف بی آر کا ٹیکس وصولی کا ہدف 7.470 کھرب روپے ہے جس کیلئے گزشتہ سال کی وصولی کے مقابلے میں 22 فیصد شرح نمو درکار ہے۔ ایف بی آر نے پہلی سہ ماہی کے دوران 1.61 کھرب روپے سے زائد اکٹھے کئے ہیں جو ہدف سے 26 ارب روپے زیادہ ہے۔ وصولی میں اضافے کی شرح 17 فیصد رہی جو موجودہ افراط زر کی شرح سے نمایاں طور پر کم ہے۔
ممبر ان لینڈ ریونیو پالیسی اور ترجمان آفاق قریشی نے کہا ایف بی آر مزید ٹیکس لگانے کی تجویز پر غور نہیں کر رہا۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی مخلوط حکومت کا یہ مطالبہ تسلیم کرنے کا امکان بہت کم ہے کیونکہ بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے بڑی اتحادی جماعت مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک اور مقبولیت پہلے ہی سب سے زیادہ متاثر ہو چکی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے آئی ایم ایف نے جو آپشنز دیئے ان میں سے ایک پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس لگانا تھا لیکن وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ٹیکس سے متعلق کوئی مطالبہ قبول نہیں کیا،حکومت اس وقت پٹرول پر 47 روپے 50 پیسے فی لٹر لیوی اور ڈیزل پر 7.58 روپے فی لٹر لیوی وصول کر رہی ہے۔
آئی ایم ایف نے حکومت سے یہ بھی کہا ہے وہ پٹرولیم لیوی لگانے کیلئے طے شدہ منصوبے پر عمل پیرا رہے، جس میں جنوری 2023 ء میں پٹرول پر 50 روپے اور مارچ 2023ء تک 50 روپے فی لٹر لیوی کی ضمانت دی گئی ہے۔ حکومت پہلے ہی پٹرول پر زیادہ سے زیادہ حد کے قریب ہے لیکن اب اسے ٹریک پر رہنے کیلیے اگلے ماہ سے ڈیزل پر ٹیکس بڑھانا شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے آئی ایم ایف نے پاکستان سے اینٹی کرپشن ٹاسک فورس کو نوٹیفائی کرنے پر بھی زور دیا ہے جس پر حکومت نے رواں سال جون میں رضامندی ظاہر کی تھی۔
معاہدے کے مطابق پاکستان جنوری 2023 ء تک انسداد بدعنوانی کے ادارہ جاتی فریم ورک کا جامع جائزہ شائع کرے گا، خاص طور پر قومی احتساب بیورو ٹاسک فورس کے ذریعے جس میں عالمی تجربہ کار اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ آزاد ماہرین کی شرکت ہوگی جو انسداد بدعنوانی کے اداروں کی آزادی کو مضبوط کرے، سیاسی اثر و رسوخ اور ظلم و ستم روکے۔
ذرائع کا کہنا ہے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی شمولیت سے قبل سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا نام ٹاسک فورس کی سربراہی کیلئے تجویز کیا گیا تھا لیکن کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
ٹاسک فورس کی سربراہی کے لیے شاہد خاقان عباسی کا نام تجویز کیا گیا تھا لیکن ماہرین کا خیال تھا کہ مضبوط قانونی پس منظر کے حامل عالمی ماہر، ترجیحاً نیوزی لینڈ یا سنگاپور سے تعلق رکھنے والے کو سربراہی کرنا چاہیے کیونکہ ان ممالک کے معاشرے میں بدعنوانی کا رجحان بہت کم سمجھا جاتا ہے۔
]]>اسلام آباد: ورلڈبینک نے کم از کم مسائل کے شکار 9 ایسے پراجیکٹس کی نشان دہی کی ہے جن کے730 ملین ڈالر کے قرضے منسوخ ہو سکتے ہیں۔
400 ملین ڈالر کے رعایتی قرضے میں 320 ملین ڈالر کا قرضہ پاکستان کے کوٹے کے تحت منسوخ کیا جا سکتا ہے جبکہ باقی دو منصوبوں کیلئے رقم بھی علاقائی کوٹے سے مختص کی گئی ہے۔
ان قرضوں کی ممکنہ منسوخی سے بچائی گئی رقم اب بھی پاکستان کو دی جا سکتی ہے اگر وہ سیلاب سے متعلقہ منصوبوں کو بروقت مکمل کرنے کا انتظام کر لے۔
ورلڈ بینک اور وفاقی حکومت کی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ان 9 منصوبوں کے علاوہ کروڑوں ڈالر کی کئی اسکیمیں ایسی ہیں جو شیڈول کے بعد مکمل ہو رہی ہیں۔ ان اسکیموں پر یہ تمام پراگریس تباہ کن سیلاب سے پہلے جون2022 تک کی ہے۔
ورلڈ بینک ان مزید اسکیموں کی تصدیق کر رہا ہے جہاں سے فنڈزسیلاب سے متعلقہ منصوبوں کی طرف منتقل کیے جاسکتے ہیں۔ 400 ملین ڈالر کا رعایتی قرضہ انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ ایسوسی ایشن(IDA) کی جانب سے دیا جا رہا ہے جو ورلڈ بینک گروپ کی ایک شاخ ہے۔
علاقائی کوٹہ کے تحت مختص کردہ 82 ملین ڈالر کا قرض بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ ان رعایتی قرضوں کی منسوخی کو ایک سنگین مسئلہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ ممالک اکثر سستے طویل مدتی قرضوں تک رسائی کے خواہاں ہوتے ہیں، چاہے ان کے پاس مالی استطاعت بھی ہو۔
بین الاقوامی بینک برائے تعمیر نو اور ترقی (IBRD) کی طرف سے دیے گئے قرضوں میں سے مزید 330 ملین ڈالر کی نشاندہی کی گئی ہے عالمی بینک گروپ کا یہ رکن مسابقتی شرح پر قرضوں میں توسیع کرتا ہے۔
ورلڈ بینک پاکستان میں 54 آپریشنز کی مالی معاونت کر رہا ہے جن کی لاگت 13 بلین ڈالر ہے، ان میں IDA اور IBRD دونوں قرضے شامل ہیں۔ تاہم انکا 67 فیصد خرچ نہیں کیا جا تا جبکہ وفاقی منصوبوں کے لیے یہ تناسب61 فیصد ہے۔ پچھلے مالی سال میں، ورلڈ بینک نے 1.6 بلین ڈالر تقسیم کیے جو پچھلے سال کے 2.1 بلین ڈالر سے کم تھے۔
غیر ملکی مالی اعانت سے چلنے والے منصوبوں کی تکمیل ہمیشہ شیڈول کے بعد ہوتی ہے اور اکثر عمل درآمد سے متعلق چیلنجوں کی وجہ سے ان کی تشکیل نو کی جاتی ہے۔ ان منصوبوں کو زیادہ تر بین الاقوامی کنسلٹنٹس نے ڈیزائن کیا ہے۔ ورلڈ بینک نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگانے اور مالیاتی ضروریات کو جزوی طور پر پورا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ورلڈ بینک کے نائب صدر برائے جنوبی ایشیا، مارٹن رائزر نے واشنگٹن میں ڈونرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تباہی کا سکیل بہت بڑا ہے، یہ 2005 کے زلزلے اور 2010 کے نقصانات سے زیادہ ہے تاہم، بحالی کے لیے بین الاقوامی امداد تب ہی موثر ہو سکتی ہے جب حکومت اپنی اقتصادی اصلاحات کی رفتار کو برقرار رکھے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ورلڈ بینک بعض شرائط میں نرمی نہیں کرے گا جو اس نے بجٹ سپورٹ قرضوں کے اجرا کے لیے عائد کی ہیں۔ بینک پنجاب رورل واٹرسپلائی اینڈ سینیٹیشن منصوبے کے لیے 200 ملین ڈالر کا قرض منسوخ کر سکتا ہے، اس میں 100 ملین ڈالر کی رعایتی فنانسنگ بھی شامل ہے۔ منصوبے کی کل لاگت 442.4 ملین ڈالر ہے۔
اسی طرح پنجاب ریسورس امپروومنٹ اینڈ ڈیجیٹل ایفیکٹیونیس پروجیکٹ کیلیے 304 ملین ڈالر کے کل قرضے میں 100 ملین ڈالر کے قرض کی منسوخی کی بھی نشاندہی کی گئی ہے، ہائر ایجوکیشن ڈیولپمنٹ پراجیکٹ کے کل400 ملین ڈالررعایتی قرض میں کم از کم80 ملین ڈالر قرضہ کی کٹوتی کا بھی امکان ہے۔
2019میں منظور ہونے والا یہ منصوبہ مشکلات کا شکار ہے اور چند ماہ قبل ورلڈبینک کا عملدرآمد مشن مقررہ مدت میں عدم تکمیل پر اس کی منسوخی کی سفارز کر چکا ہے، پنجاب ایگریکلچر اینڈ رورل ٹرانسفارمیشن پروگرام کے 300 ملین ڈالر قرض میں 70 ملین ڈالر منسوخ ہو سکتا ہے۔425 ملین ڈالر کے نیشنل ٹرانسمیشن ماڈرنائزیشن پراجیکٹ کا 50 ملین ڈالر کا قرض بھی منسوخ کیا جا سکتا ہے۔
ٹرانسمیشن پراجیکٹ کی منظوری 2017 میں دی گئی تھی اور جون 2022 تک 389 ملین ڈالر خرچ نہیں ہوئے تھے۔ اسی طرح پاکستان ہائیڈرومیٹ اینڈ کلائمیٹ سروسز پروجیکٹ کو 110 ملین ڈالر کے قرض کی منسوخی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس میں علاقائی کوٹہ سے 14.6 ملین ڈالر شامل ہیں۔ مئی 2018 میں اس منصوبے کی کل لاگت 188 ملین تھی اور جون تک 175 ملین خرچ ہی نہیں ہوئے تھے۔ اس منصوبے کو عالمی بینک پہلے ہی غیر تسلی بخش قرار دے چکا ہے۔
خیبرپختونخوا اقتصادی راہداری منصوبے کے لیے 100 ملین ڈالر کا قرضہ بھی منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ 436 ملین ڈالر کی لاگت کے منصوبے کو 2018 میں منظور کیا گیا تھا لیکن اسے عملدرآمد کے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔
]]>کراچی: ملک میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 30 کروڑ سے زائد کی کمی ہوئی ہے۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق مرکزی بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم 7 ارب 53 کروڑ 69 لاکھ ڈالر ہے، جب کہ دیگر شیڈولڈ بینکوں کے پاس 5 ارب 64 کروڑ 99 لاکھ ڈالر کے ذخائر ہیں۔
اس طرح ملک کے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم 13 ارب 24 کروڑ 68 لاکھ ڈالر رہا۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق ایک ہفتے میں زرمبادلہ کے ذخائر 30 کروڑ 3 لاکھ ڈالرز کی کمی واقع ہوئی ہے، کم ہونے والے زرمبادلہ تجارتی قرض کی واپسی اور یورو بانڈز پر سود کی ادائیگی کی مد میں خرچ ہوا ہے۔
]]>اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ قرضوں کی ری شیڈولنگ کیلئے پیرس کلب نہیں جائیں گے اور عالمی ادارے بھی ہمارے کیے گئے فیصلوں کی تائید کریں گے۔
پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف معاہدے کی پاسداری کریں گے اوراتحادی حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گی، گزشتہ حکومت کی وجہ سے ملک مسائل کا شکار ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ایل سیز سے متعلقہ شکایات کا ازالہ کریں گے، اسٹیٹ بینک نے مؤخر ادائیگی سے متعلق ڈیٹا فراہم کردیا ہے، 50 ہزار ڈالر تک کی ایل سیز کی ادائیگی کرنے جارہےہیں جبکہ 5 برآمدی صنعتوں کے مسائل کے حل کیلئے اقدامات کیے ہیں۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ تمام فیصلوں پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا، بانڈ کے حوالے سے ادائیگی بھی بر وقت کریں گے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ 2008 میں بطوروزیر خزانہ میں نے اسلامی فلاحی ریاست کے اقدام کے تحت 34ارب روپے بی آئی آیس پی رکھے گئے تاکہ کمزور اور پسماندہ طبقے کی مدد ہوسکے جو 2018میں بی آئی ایس پی کا بجٹ بڑھا کر40ارب کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آج ریاست مدینہ پر سیاست ہورہی ہے، گزشتہ چند برسوں میں اخلاق کا جنازہ نکال دیا گیا ہے، جھوٹ بولنے والا ریاست مدینہ کا معمار نہیں ہوسکتا، قوم کے اتحاد کو تارا تارا کردیا گیا ہے، ریاست مدینہ کی بات کریں تو اس پر عمل بھی ہوناچاہیے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ سیلاب سے آدھا پاکستان ڈوبا ہوا ہے، آج سیاست کو ایک جانب رکھ کرسب کو سیلاب متاثرین کی مدد کرنی چاہیے، وزیر اعظم نے سیلاب متاثرین کے لئے کئی اسکیموں کا اعلان کیا ہے، فی خاندان 25 ہزار دیے گئے اس حوالے سے کچھ شکایات ملیں ان کے ازالے کے لئے اقدامات کیے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ کرنسی کی قدر بہتر ہونے سے 2900ارب روپے قرضوں میں کمی ہوئی ہے، پاکستان کو دیوالیہ کرنے کی سازش کو ناکام بنایا، پاکستان کو 2018 کی سطح پر لے کر جائیں گئے، جی ڈی پی میں اضافہ، مہنگائی میں کمی کریں گے۔
]]>اسلام آباد: وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ٹیکسٹائل سیکٹر کے برآمد کنندگان کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے فی یونٹ پاور ٹیرف 19.99روپے مقرر کر دیا، ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدی صنعتوں کے لیے مذکورہ رعایتی ٹیرف 30جون 2023 تک مؤثر بہ عمل ہوگا۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کی آج وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقات ہوئی جس میں اپٹما وفد کی سربراہی پیٹرن انچیف گوہر اعجاز نے کی۔ ملاقات میں ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے معاملات طے پائے گئے، ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے بجلی کے نرخ فکسڈ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ایسوسی ایشن کے وفد سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ آج ایکسپورٹرز سے بات چیت ہوئی ہے، چند ماہ پہلے وعدہ کیا گیا تھا کہ 9 سینٹ پر بجلی فراہم کی جائے گی اور ایکسپورٹرز کو دو ماہ تک 9 سینٹ پر بجلی فراہم بھی کی گئی۔
اسحاق ڈار نے بتایا کہ ایکسپورٹرز نے کہا کہ جولائی 2023 تک بجلی 9 سینٹ فی یونٹ پر بجلی فراہم کی جائے، برآمد کنندگان سے معاہدہ ہوا ہے، ان کے لیے ٹیرف لاک کیا جائے گا لہٰذا اب ٹیکسٹائل سیکٹر کے ساتھ بجلی کا نرخ 19 روپے 99 پیسے فی یونٹ طے ہوا ہے جس کا فرق حکومت برداشت کرے گی۔
انکا کہنا تھا کہ بجلی کے اس ریٹ میں تمام ٹیکس شامل ہیں اور ایک سال میں برآمد کنندگان کے لیے بجلی کی مد میں 90سے 100 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ بجلی کے نرخ صرف ٹیکسٹائل سیکٹر کیلئے نہیں بلکہ پانچوں برآمدی شعبوں کے لیے ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ایکسپورٹ کی ضرورت ہے، اپٹما نے 12.7 فیصد ایکسپورٹ بڑھائی اور آج برآمد کنندگان کے ساتھ مذاکرات ہوئے ہیں، اگر برآمدات 15 سے 20 ارب ڈالرز بڑھ جائیں تو کسی کی ضرورت نہیں۔
]]>اسلام آباد: ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے انکشاف کیا ہے کہ کرنسی کی قدر میں 8 بینکوں نے ہیر پھیر کر کے ناجائز پیسہ بنایا۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا قیصر احمد شیخ کی زیر صدارت اجلاس ہوا، جس میں اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر، وزیرمملکت برائے خزانہ عائشہ غوث بخش بھی پیش ہوئیں۔
کمیٹی اراکین نے سوال اٹھایا کہ ڈالر 245 سے بھی اوپر کیسے چلا گیا، اسٹیٹ بینک نے بطور ریگولیٹر بینکوں کیخلاف کاروائی کیوں نہیں کی جبکہ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر ریٹ میں 10 روپے کا فرق بھی دیکھا گیا ہے۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ کرنسی کی قدر میں ہیر پھیر میں 8 بینکس نیشنل بینک، میزان بینک، بینک الحبیب، حبیب میٹرو، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ، ایچ بی ایل، یو بی ایل اور الائیڈ بینک ملوث ہیں، جنہوں نے ناجائز پیسہ کمانے کی خاطر ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا اور پاکستان کے بیرونی قرض کو بڑھایا جس میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔
ڈالر ریٹ سے ناجائز پیسہ کمانے والے بینکوں کی فہرست کمیٹی میں پیش ہوئی تو خزانہ کمیٹی میں ارکان گورنر اسٹیٹ بینک اور سیکرٹری خزانہ پر برس پڑے۔
وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ اسٹیٹ بینک ثبوت کے ساتھ آگے بڑھے گا اور مکمل شواہد کے ساتھ بینکوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
قبل ازیں برجیس طاہر نے کہا ہے کہ لوگ اسحاق ڈار کو ایس ایچ او کہتے ہیں جس کے آتے ہی ڈالر چند روز میں 14 روپے تک سستا ہوگیا۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا قیصر احمد شیخ کی زیر صدارت اجلاس ہوا، جس میں سینیٹر برجیس طاہر نے سوال کیا کہ اسھاق ڈار کے آنے سے کون سا طریقہ کار اختیار کیا گیا کہ ڈالر نیچے آگیا، لوگ کہتے ہیں ایس ایچ او اسحاق ڈار آیا اور ڈالر ٹھیک ہوگیا، اسحاق ڈار کے آنے سے ڈالر ایک ہفتے میں 12 سے 14 روپے سستا ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ آپ لوگ کہتے تھے سیاسی عدم استحکام کے باعث ڈالر بے قابو ہے تو پھر وزیر خزانہ کی تبدیلی اور اسحاق ڈار کی واپسی پر اس کی قیمت میں کمی کیسے ہوئی۔
]]>اسلام آباد: آئی ایم ایف کی پٹرول پر عائد ٹیکس تین ماہ کیلئے منجمد کرنے پر رضامند ظاہر کرنے کے بعد وزارت خزانہ نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اصولی فیصلہ کرلیا۔
آئی ایم ایف نے پٹرولیم مصنوعات پر عائد لیوی ٹیکس تین ماہ کیلئے منجمد کرنے پر اصولی رضامندی ظاہر کی ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کا اعلان کل ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی حتمی معاہدہ نہیں۔ آئی ایم ایف معاہدے کے تحت جنوری 2023 تک پٹرول پر پٹرولیم لیوی 50روپے فی لیٹر تک بڑھانا ہے۔
واضح رہے کہ پیٹرول پر اس وقت 37.42 روپے فی لیٹر کے لگ بھگ پیٹرولیم لیوی عائد ہے جب کہ ہائی اسپیڈ ڈیزل پر 7.35 روپے فی لیٹر کے لگ بھگ ہے، اس کے علاؤہ مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل آئل پر دس دس روپے فی لیٹر پٹرولیم لیوی عائد ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل آئل فی لیٹر پٹرولیم لیوی بتدریج بڑھا کر پچاس روپے کی جائے گی۔
]]>کراچی: ورلڈ بینک نے سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے 2 ارب ڈالر قرض کی فراہمی کا عندیہ دیدیا جب کہ یہ عندیہ ورلڈبینک کے جنوبی صدر برائے جنوبی ایشیا مارٹن ریسر کی سربراہی میں وفد کے دورہ پاکستان کے اختتام پر دیا گیا۔
ورلڈبینک کے نائب صدر برائے جنوبی ایشیا مارٹن ریسر کی سربراہی میں وفد کے دورۂ پاکستان کے اختتام پر پاکستان کو سیلاب زدگان کی بحال کے لیے 2 ارب ڈالرقرض کی فراہمی کا عندیہ دیا گیا۔
ورلڈ بینک کے پاکستان میں واقع دفتر کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق سیلاب کی تباہ کاریوں کے پیش نظر ورلڈ بینک پاکستان کے عوام کو سپورٹ کرنے کے لیے پر عزم ہے۔
ورلڈ بینک کا کہنا تھا کہ فوری ردعمل کے طور پر ورلڈ بینک کی مالی اعانت سے چلنے والے منصوبوں کی رقم صحت، خوراک، پناہ گاہوں، بحالی اور نقد رقوم کی ہنگامی ضروریات کے لیے فراہم کی جائے گی۔
ورلڈبینک کے نائب صدر برائے جنوبی ایشیا مارٹن ریسر کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں ہم 2 ارب ڈالر کی فنانسنگ پر غور کررہے ہیں۔ پاکستان کے دو روزہ دورے کے دوران مارٹن ریسر نے وفاقی وزرا، گورنر اسٹیٹ بینک، چیئرمین نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، تھنک ٹینکس کے نمائندوں اور نجی شعبے سے ملاقات کی۔
دریں اثنا عالمی بینک کے وفد نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے بھی ملاقات کی۔ ملاقات میں سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریوںاور سیلاب زدگان کی بحالی پر گفت وشنید کی گئی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ سیلاب سے 1.7 ملین مکانات منہدم ہوچکے ہیں جن کی تعمیر پر کم از کم 500 ملین ڈالر لاگت آئے گی۔
مارٹن ریسر نے کہا کہ ان کے ماہرین اور سندھ حکومت کے متعلقہ افسران مل بیٹھ کر اس کی لاگت، وقت اور تعمیراتی ٹیکنالوجی کے ساتھ ایک منصوبہ تیار کریں گے تاکہ منصوبے کو منظوری کے لیے بینک حکام کو بھیجا جا سکے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ میونسپل سڑکوں کی تعمیر پر کم از کم 100 ملین ڈالر درکار ہوں گے، ورلڈ بینک کی ٹیم نے سڑکوں کی تفصیلات جمع کرانے کی تجویز دی تاکہ اس منصوبے پر غور کیا جا سکے اور اس کی منظوری دی جا سکے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ سیلاب سے 12 ہزار سے زائد مویشی ہلاک ہوچکے ہیں جو کہ غریب لوگوں کی آمدنی کا واحد ذریعہ ہے،آمدنی پیدا کرنے اور روزی روٹی کی اسکیم پر 1 ملین ڈالر لاگت آئے گی۔ اس پر ورلڈ بینک کے وفد نے اس پلان کو سراہا اور وزیراعلیٰ سندھ پر زور دیا کہ وہ اس کا ورکنگ پیپر منظوری کے لیے پیش کریں۔
]]>لاہور: وفاقی حکومت نے صارفین پر ایک اور بجلی بم گرا دیا۔
رواں سال نیپرا کی جانب سے منظور کیا گیا بجلی کا نیا بنیادی ٹیرف اکتوبر سے لاگو ہوگا۔
نئے ٹیرف کے مطابق بجلی کی قیمت میں 4روپے 10پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا ہے جبکہ اکتوبر کے مہینے میں بجلی صارفین کو بھیجے جانے والے بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز اور دیگر ٹیکسز الگ سے شامل کیے جائیں گے۔
]]>کراچی: ملک کو رواں سال مطلوبہ 36 ارب ڈالر کی ضروریات کا بندوبست نہ ہونے، دوست ممالک کے عدم تعاون سے مالیاتی بحران شدت اختیار کرنے اور سیلاب سے معیشت سست روی کا شکار ہونے کے باعث منگل کو بھی ڈالر نئی بلندیوں کو چھونے میں سرگرم رہا۔
انٹربینک مارکیٹ میں کاروباری دورانیے میں ڈالر کی قدر ایک موقع پر 239 روپے کی سطح سے بھی تجاوز کرگئی تھی تاہم اختتامی لمحات میں ڈیمانڈ گھٹنے سے ڈالر کی قدر 99 پیسے کے اضافے سے 238.90 روپے کی سطح پر بند ہوئی۔ اس کے برعکس اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر بغیر کسی تبدیلی کے 245.40 روپے کی سطح پر مستحکم رہی۔
بنیادی اشیائے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی طلب سے افراط زر کی شرح بھی سنگین سطح پر آنے کے خدشات کے باعث ڈالر بے قابو ہوگیا۔غیر یقینی معاشی حالات اور ملک کو درپیش مالیاتی بحران کے باعث آنے والے دنوں میں برآمدات میں کمی خدشات روپیہ کی تاریخ ساز بے قدری کاباعث بن گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ خام تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کے اثرات بھی زائل ہوگئے ہیں اور پاکستانی عوام بدستور مہنگی قیمتوں پر پیٹرول اور ڈیزل خریدنے پر مجبور ہیں۔
سعودی عرب کی جانب سے اگرچہ 3 ارب ڈالر کے قرضے ایک سال کے رول اوور کردئیے گئے ہیں لیکن ڈالر کی قدر کا تعین مارکیٹ فورسز پر چھوڑے جانے کے باعث اس کے بھی مثبت اثرات نظر نہیں آرہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زرمبادلہ کی مارکیٹوں میں ڈالر کی قدر میں کمی ایک اہم وجہ اعتماد کا فقدان بھی ہے کیونکہ تجارت و صنعتی شعبوں کو معیشت کو سدھارنے، برآمدات بڑھانے سے متعلق حکومت کا کوئی مستقبل کا پلان نظر نہیں آرہا جبکہ ہفتہ وار بنیادوں پر ذرمبادلہ کے گھٹتے ہوئے ذخائر منفی خدشات اور بے یقینی کی شدت بڑھارہے ہیں۔
برآمدی شعبوں کی جانب سے اپنے خام مال کے درآمدی کنسائمنٹس منگوانے کے لیے زرمبادلہ کا حصول بڑھ گیا ہے جبکہ دوست ممالک سے پاکستان کو مطلوبہ قرضوں کے حصول میں مشکلات نے ڈالر کی اہمیت بڑھادی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے سیلاب کے بعد معیشت کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے سے متعلق کوئی منصوبہ بندی منظر عام پر نہیں آرہی ہے جس سے تجارت وصنعتی حلقوں میں تشویش بڑھتی جارہی ہے جو زائد لاگت پر بھی ڈالر حاصل کرکے اپنے خام کی درآمدات کی کوششیں کررہے اور یہی عوامل ڈالر کی اڑان کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
]]>اسلام آباد: پاکستان نے روس سے مؤخر ادائیگیوں پر تیل کی خریداری پر غور شروع کر دیا ہے۔
ازبکستان کے تاریخی سمرقند میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران وزیر اعظم شہبازشریف کی روسی صدر پیوٹن کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں اس معاملے کا جائزہ لیا گیا۔
اس کانفرنس میں وزیراعظم کے ساتھ جانے والے سرکاری ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ وزیراعظم کی روسی صدر کے ساتھ 3 ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ان میں ایک رسمی اور دوغیررسمی تھیں۔ ان ملاقاتوں میں روس سے تیل کی خریداری کا معاملہ بھی زیرغور آیا ہے۔
سرکاری ذرائع نے اس معاملے کی حساسیت کے پیش نظر نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ روس پاکستان کو مؤخرادائیگیوں پر تیل دینے پر تیار ہوگیا ہے۔
دوسری طرف امریکا نے بھی اس کی کھل کر مخالفت نہیں کی۔ان ذرائع نے سابق حکومت کے اس دعوے کو غلط قراردیاکہ وہ روس سے کم نرخوں پرتیل خریدنے والی تھی۔ ذرائع کے بقول حالیہ ملاقات میں ہم نے روس سے مؤخرادائیگیوں پر تیل خریدنے کے امکانات کا جائزہ لیا ہے، روس اس تجویز پرغور کیلئے تیار ہوگیا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان بار بار الزام لگاتے رہے ہیں ان کی حکومت کے خاتمے میں امریکہ کا ہاتھ ہے، امریکا سابق حکومت کا اس لیے مخالف ہوگیا تھا کیونکہ وہ پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی چلا رہے تھے۔ تاہم امریکا نے ہربار پاکستان کے اندرونی معاملات میں مخالفت کی تردیدکی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف اور صدر پیوٹن میں ہونے والی حالیہ ملاقاتوں سے عمران خان کی طرف سے گھڑی گئی سازشی تھیوری کی نفی ہو جاتی ہے۔
پاکستان اورروس کے تعلقات میں یہ پیشرفت ایسے موقع پر ہو رہی ہے جب حال ہی میں ایک اعلیٰ امریکی مشیراسلام آباد کا دورہ کرچکے ہیں اور امریکی انتظامیہ نے F-16 طیاروں کے پرزوں کی خریداری کیلیے 45 کروڑ ڈالر کی بھی منظوری دیدی ہے۔
]]>