کراچی: سندھ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کی ہدایت کے باوجود کراچی کی بندرگاہ پر امریکی سویابین کی آف لوڈنگ جاری ہے۔
وفاقی اداروں اور سندھ حکومت کے مابین ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ سے ہزاروں جانیں داؤ پر لگی ہوئی ہیں، سندھ حکومت اور انوائرمینٹل پرورٹیکشن ایجنسی نے کراچی پورٹ پر سویابین کی آف لوڈنگ کے دوران فضائی آلودگی پھیلنے کو جواز بناکر سویابین کی آف لوڈنگ روکنے کے احکامات جاری کردیے تاہم کراچی پورٹ انتظامیہ نے سندھ انوائرمینٹ پروٹیکشن ایجنسی کے احکامات مسترد کرتے ہوئے سویابین کی آف لوڈنگ جاری رکھی ہے۔
17دسمبر کو کراچی پورٹ پر لنگر انداز ہونے والے بحری جہاز سے اب تک18ہزار ٹن سے زائد سویابین آف لوڈ کیا جاچکا ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ آف لوڈنگ محفوظ طریقے سے عالمی اصولوں کے مطابق کی جارہی ہے تاہم ہر روز پورٹ سے ملحقہ آبادی میں تنفس کی بڑھتی ہوئی شکایات اور اب تک ہونے والی 4ہلاکتیں سوالیہ نشان ہیں۔
رواں سال فروری میں بھی کراچی پورٹ پر سویابین کی آف لوڈنگ کے دوران نزدیکی آبادی میں 14افراد زہریلی گیس کا شکار ہوکر جان کی بازی ہار گئے تھے، رواں ماہ 17دسمبرکو کراچی کی بندرگاہ پہنچنے والے بحری جہاز ’’میگا بینیفٹ‘‘ نامی جہاز سے سویابین کی آف لوڈنگ شروع ہوتے ہی نزدیکی آبادی میں تنفس کے مسائل اور سانس لینے میں دشواری کی شکایات سامنے آنے لگیں اور قریب واقع ضیا الدین اسپتال نے ایک بیان کے ذریعے اس جانب توجہ مبذول کرائی کہ متاثرہ علاقے سے سانس لینے میں دشواری کی شکایات کا شکار افراد اسپتال لائے جارہے ہیں اور صورتحال فروری 2020جیسی نہ ہوجائے۔
مقامی آبادی میں سانس لینے میں دشواری اور چار افراد کی ہلاکتوں کے بعد سندھ انوائرمنٹیل پروٹیکشن ایجنسی کی ایک ٹیم نے 24دسمبر کو کراچی پورٹ کی تنصیبات کا دورہ کیا اور سویابین کی آف لوڈنگ کا جائزہ لیا۔
]]>لاہور(طاہر محبوب) ’’بھیڑیا‘‘ عموماً یہ لفظ دہشت، خونخواری اور ہیبت کو ظاہر کرتا ہے۔ اور ہے بھی ایسا ہی۔ کیونکہ بھیڑیے کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کی نظر اتنی تیز ہوتی ہے کہ کسی جانور کو دیکھ لیتا ہے تو انتہائی پھرتی سے اس پر جھپٹ کر اسے چیر پھاڑ دیتا ہے۔ لیکن اگر اس کی خصوصیات کو دیکھیں تو وہ اپنے اصولوں کا بہت پابند ہے۔ جیسے وہ اپنی آزادی پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرتا، نہ اپنی محرم مادہ پر جھانکتا ہے۔ اپنی شریکِ حیات کے علاوہ کسی مادہ سے تعلق قائم نہیں کرتا۔ بھیڑیے کو عربی میں ’’ابن البار‘‘ یعنی نیک بیٹا کہتے ہیں۔ اپنی اولاد کو پہچانتا ہے اور اپنے بوڑھے والدین کےلیے بھی شکار کرتا ہے۔ اسے یہ سب خصوصیات اپنے خالق کی طرف سے عطا کی گئی ہیں، جن کی پاسداری باقی مخلوقات کی طرح یہ خونخوار جانور بھی کرتا ہے۔
خدا کی مخلوقات میں انسان ’’اشرف المخلوقات‘‘ کا شرف حاصل کیے ہوئے ہے، جسے عقل و شعور کی نعمت سے بھی نوازا گیا ہے۔ لیکن خدا کی یہ اشرف مخلوق جب اپنے ہی ہم جنسوں یعنی انسانوں پر ظلم وستم ڈھانے پر آتی ہے تو انسانیت کی تذلیل کی ساری حدیں پار ہوجاتی ہیں اور روح کانپ اٹھتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں آئے روز ایسے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے جن کو سن اور دیکھ کر عذابِ الٰہی کے وہ زمانے یاد آجاتے ہیں، جن میں رب تعالیٰ نے اپنی اس اشرف مخلوق کو تہس نہس کردیا تھا، جس سے رب تعالیٰ ماں سے 70 گنا زیادہ محبت کرتا ہے۔ کچھ سال پہلے کی بات کریں تو سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو سرِبازار درجنوں لوگوں کی موجودگی میں عوام کے ہجوم نے چوری کے الزام میں اس بے دردی سے مارا کہ جسم کا کوئی حصہ، کوئی ہڈی اور جوڑ سلامت نہ بچا۔
آخر کیوں؟ کس نے اختیار دیا کہ انسانیت کو اس طرح سڑکوں اور چوراہوں پر رسوا کیا جائے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کو دیکھ لیجئے۔ کیا کچھ نہیں ہوا؟ عورتوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ ایک حاملہ عورت کو بھی بے دردی سے مارا گیا۔ اس طرح مشعال خان کا قتل، جسے والدین کا سہارا بننا تھا اور بہترین مستقبل کےلیے وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کےلیے یونیورسٹی گیا تھا، ایک مشتعل ہجوم کے ہاتھوں موت کی آغوش میں چلا گیا۔
بے دردی اور بے حسی کا یہ عالم ابھی ختم نہیں ہوا۔ زینب جیسی کلی کو پھول بننے سے پہلے زیادتی اور پھر قتل کر کے لاش کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا گیا۔ اسی پر بس نہیں، ایسے واقعات کا بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ انسانیت سے یقین اٹھتا چلا جارہا ہے۔ کسی کی عزت، حرمت، جان اور مال سلامت اور بحفاظت نہیں رہے۔
چند دن پہلے کراچی میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا۔ ایک نوعمر لڑکے کو باندھ کر اس بے دردی سے مارا گیا کہ جان کی بازی ہی ہار گیا۔ کیا چوری کیا تھا اس نے؟ کتنے کا ڈاکا ڈالا ہوگا؟ یہاں تو اربوں روپے لوٹنے والے کروڑوں کی گاڑیوں میں اور پولیس کی مکمل حفاظت اور پروٹوکول میں عدالت آتے اور جاتے ہیں اور ڈھٹائی سے اے سی، فریج اور ٹی وی کی فرمائشیں کرتے پائے جاتے ہیں۔ اور بے حسی کا عالم دیکھیں کہ عوام جو دو چار سو والے چور کو پیٹ پیٹ کر جان سے مار دیتے ہیں اور ان سیاسی لٹیروں کا پھولوں کی پتیوں سے استقبال کرتے ہیں۔ اگر وہی ہزار دو ہزار کسی غریب کی جیب میں ڈال دو تو وہ چوری جیسے عمل سے دور رہے۔
حالیہ دنوں ایک اور واقعہ جس نے ہزاروں آنکھوں کو اشک بار کیا، وہ صلاح الدین کا واقعہ ہے۔ جسے رحیم یار خان کے علاقے میں اے ٹی ایم مشین سے کارڈ چوری کرنے کے الزام میں پکڑا گیا۔ ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ پولیس بکری چور، سائیکل چور جیسے مجرموں کو اتنی جلدی کیسے پکڑ لیتی ہے اور کروڑوں، اربوں روپوں کی چوری کرنے والے ان کی قابلیت، ہنرمندی اور انتھک محنت سے کیسے بچ جاتے ہیں؟ صلاح الدین نے ان بھیڑیوں سے پوچھا کہ ’’اک گل پُچھاں، مارو گے تے نئی، تُسی مارنا کتھوں سکھیا اے‘‘۔ اس ذہنی مریض کو کیا پتہ تھا اس بے رحمی سے مارنا صرف انہوں نے ہی نہیں سیکھا بلکہ بہت سے اور بھی ہیں جو انسان کی شکل میں جانور سے بھی بدتر ہیں۔ اسے کیا معلوم تھا کہ وہ اس عقوبت خانے سے باہر کسی ہجوم کے ہاتھ لگ جاتا تو انھوں نے بھی یہی حال کرنا تھا اس کا یا اس سے بھی برا۔
ہم دنیا کو کشمیر پر بھارتی مظالم دکھانے کےلیے پچھلے 72 سال سے سر دھڑ کی کوشش کررہے ہیں، لیکن اپنے ملک کے کسی ایک محلے کے پولیس اسٹیشن کو ٹھیک نہیں کرسکے۔ ہم فلسطین، برما اور شام کے مسلمانوں کے قتل و غارت پر تقریریں کرتے نہیں تھکتے، چیخ و پکار کرتے ہیں، قراردادیں اور مذمتیں کرتے ہیں، دنیا جہان کے دورے کرتے ہیں، سلامتی کونسل کے اجلاس بلانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اپنے بے گناہ عوام کی سلامتی، جان مال اور عزت کے تحفظ کےلیے کچھ نہیں کرتے۔ پولیس ریفارمز اور تھانہ کلچر کو ٹھیک کرنے کی باتیں کرتے ہیں، مگر پچھلے پانچ سال میں ماڈل ٹاؤن قتل کیس کے فیصلے تک نہیں پہنچ سکے۔ ساہیوال میں قتل ہونے والے خاندان کو انصاف نہ دلا سکے۔
آخر ہم اتنے بے حس کیوں ہوچکے ہیں؟ ہمیں دوسروں کی تکلیف کیوں محسوس نہیں ہورہی؟ کیا اسی طرح یہ معاشرہ پروان چڑھے گا جس میں ’’جس کی لاٹھی، اس کی بھینس‘‘ والا فارمولا استعمال ہوگا۔ خدا کےلیے انسانیت کی قدر کریں، کیوں کہ ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔
نوٹ: روزنامہ طاقت اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگرآپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ editor@dailytaqat.com پر ای میل کردیجیے۔
]]>لاہور(طاقت ڈیسک) مقبوضہ کشمیر کے بزرگ علیحدگی پسند رہنما سید علی گیلانی کو پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ بالا نے ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز نشانِ پاکستان دینے کی سفارش کی ہے۔
بھارت نے سرکاری طور پر تاحال پاکستان کے اس فیصلے پر کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ البتہ بھارت میں حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے بعض رہنما اسے علیحدگی پسند رہنماؤں اور دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ لیکن سوشل میڈیا پراس فیصلے پر لوگ اپنی آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ گزشتہ پانچ دہائیوں سے کشمیر کے سیاسی منظر نامے پر متحرک بزرگ رہنما نے حال ہی میں کشمیر کی علیحدگی پسند جماعتوں کے اتحاد آل پارٹیز حریت کانفرنس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ لیکن اُنہوں نے کہا تھا کہ وہ تاحیات کشمیر کی بھارت سے آزادی کے لیے سرگرم رہیں گے۔
پاکستان کی ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں رواں ہفتے متفقہ طور پر منظور کی جانے والی قرارداد میں 91 سالہ بزرگ کشمیری رہنما کی “جدوجہدِ آزادی کی خدمات کے اعتراف میں” اُنہیں ‘نشانِ پاکستان’ دینے کی سفارش کی گئی تھی۔ قرارداد میں مزید کہا گیا تھا کہ پاکستان میں وفاق اور صوبائی سطح پر تعلیمی نصاب میں سید علی گیلانی کی جدوجہد سے متعلق مضامین کو شامل کیا جائے تاکہ نوجوان نسل کو ان کی عظمت کا اندازہ ہو سکے۔ مقبوضہ کشمیر میں کئی افراد نے پاکستانی سینیٹ کی قرار داد کا خیر مقدم کیا ہے جب کہ بعض مقامی رہنماؤں نے اسے پاکستان کا ایک سیاسی حربہ قرار دیا ہے۔
سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہٴ قانون اور بین الاقوامی تعلقات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر شیخ شوکت حسین کا کہنا ہے کہ سید علی گیلانی ہمیشہ سے ہی کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حامی رہے ہیں اور کشمیر میں جو مزاحمت جاری ہے اُس کی وہ اُسی سمت میں قیادت کرتے رہے ہیں۔ علی گیلانی کی جو قربانیاں رہی ہیں، انہیں مدِ ںظر رکھا جائے تو وہ اس ایوارڈ سے بھی زیادہ عزت افزائی کے مستحق ہیں۔ ان کے بقول اگر پاکستان گیلانی صاحب کی اس سے بھی زیادہ پذیرائی کرتا ہے تو اس پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔
شیخ شوکت کا کہنا تھا کہ پاکستان نے غیر ملکی شخصیات کو یہ اعلیٰ ایوارڑ دینے کا سلسلہ آج شروع نہیں کیا بلکہ اس سے پہلے جن غیر پاکستانی شخصیات کو اس سے نوازا گیا اُن میں بھارت کے ایک سابق وزیرِ اعظم مرار جی ڈیسائی بھی شامل ہیں۔ شیخ شوکت حسین کے بقول علی گیلانی کو نشانِ پاکستان دینے پر بھارت میں ضرور منفی ردِ عمل ہوگا لیکن اس کی شدت زیادہ نہیں ہو گی اور اس سلسلے میں بعض حلقوں کی طرف سے جن خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے وہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے صدر رویندر رینہ کہتے ہیں کہ سید علی گیلانی جیسے لوگ پاکستان کے وفادار اور اُسی کے ایجنٹ ہیں۔ اُنہوں نے الزام لگایا کہ سید علی گیلانی نے پاکستان کے ساتھ مل کر گزشتہ 30،35 برسوں میں بھارت کے خلاف کام کیا ہے اور اُن کو نشانِ پاکستان نوازنے کے اعلان سے ثابت ہو گیا کہ وہ صرف پاکستان کی سنتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کی پولیس کے سابق سربراہ شیش پال وید نے ایک انٹرویو میں کہا کہ سید علی گیلانی کو سزا دینے کے لیے بھارت میں سیاسی قوتِ ارادی ناپید ہے۔ گیلانی پاکستان کے آلہٴ کار ہیں اور جموں و کشمیر میں برسوں سے جاری خون خرابے کے ذمہ دار بھی ہیں۔ وہ پاکستان کے سب سے بڑے سویلین ایوارڈ کے مستحق ہیں کیوں کہ پاکستان اپنے آلہٴ کار کی عزت افزائی کر رہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ پاکستان سید علی گیلانی کو سب سے بڑا سول ایوارڈ دے رہا ہے۔ لیکن بھارت کی حکومت 70 سال سے مرکزی حکومت کی پالیسیوں کی حمایت کرنے والی کشمیری قیادت کے خلاف سرگرم ہے۔ محبوبہ مفتی سرینگر میں اپنی رہائش گاہ پر نظر بند ہیں اور ان کا ٹوئٹر ہینڈل گزشتہ 10 ماہ سے اُن کی صاحبزادی التجا مفتی سنبھال رہی ہیں۔
کئی بھارتی شہریوں نے سوشل میڈیا کا رُخ کر کے پاکستانی پارلیمان کی جانب سے سید علی گیلانی کو نشانِ پاکستان دینے کی سفارش کو ایک غلط اور قابلِ اعتراض فیصلہ قرار دیا ہے۔
بھارتی فوج کے ایک سابق افسر بریگیڈیئر (ر) آر ایس پٹھانیہ نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ علیحدگی پسند گیلانی کو پاکستان کا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ نشان پاکستان دیا جا رہا ہے۔ کیا بھارت انہیں خوش کرنے کے لیے سفری دستاویزات فراہم کرے گا تاکہ وہ مقبوضۃ کشمیر میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے یہ ایوارڈ حاصل کرسکیں یا ہم انہیں وہاں ہمیشہ کے لیے بھیجنے والے ہیں؟
ایک اور بھارتی شہری ڈاکٹر کپل شرما کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیںیٹ نے گیلانی کو نشانِ پاکستان دینے کے لیے کہا ہے۔ اس صورتِ حال میں بھارت کو ان کے بقول بلوچستان کی آزادی کے لیے لڑنے والے نواب اکبر بگٹی کو بھارت رتن (بھارت کا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ) دینا چاہیے۔
مقبوضہ کشمیر سے نقلِ مکانی کرنے والی ایک ہندو پنڈت خاتون پریتیبا کول نے کہا کہ کشمیری پنڈتوں کو وادی سے بے دخل کرنے کے صلے میں پاکستان علی گیلانی کو اس اعزاز سے نواز رہا ہے۔ اس کے برعکس کئی لوگوں نے جن میں بعض سیاسی جماعتوں کے سرکردہ اراکین بھی شامل ہیں، سوشل میڈیا پر رائے دی ہے کہ سید علی گیلانی کو نشانِ پاکستان سے نوازا جانا کوئی انوکھا یا غیر متوقع واقعہ نہیں ہے۔
سید علی گیلانی طویل عرصے سے بیمار ہیں اور سرینگر کے حیدر پورہ علاقے میں واقع اپنی رہائش گاہ پر گزشتہ 10 برس سے نظر بند ہیں۔ اُنہوں نے گزشتہ ماہ غیر متوقع طور پر کُل جماعتی حریت کانفرنس سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا تھا۔ خیال رہے کہ حریت کانفرنس جموں و کشمیر میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کا ایک بڑا اتحاد ہے جو مارچ 1993 میں قائم ہوا تھا۔ اپنے قیام کے 10 سال بعد قیادت میں اختلافات کی بنا پر یہ اتحاد دو دھڑوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔
کشمیر کے مسئلے پر سخت مؤقف رکھنے والے دھڑے کی قیادت سید علی گیلانی نے سنبھالی تھی جب کہ اعتدال پسند جماعتیں میر واعظ عمر فاروق کی سربراہی میں جمع ہو گئی تھیں۔ سید علی گیلانی کو چند سال قبل حریت کانفرنس کا تاحیات چیئرمین مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن سید علی گیلانی کے بارے میں اتحاد میں شامل بعض افراد کی یہ رائے تھی کہ انہیں ان کی بگڑتی صحت کے پیشِ نظر ایسی سرگرمیوں سے الگ رکھا جائے جنہیں نبھانے میں انہیں مشکل پیش آ سکتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے بعض حلقوں کے خیال میں پانچ اگست 2019 کو بھارتی حکومت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی خود مختاری کو ختم کرنے کے بعد کی صورتِ حال میں سید علی گیلانی ایک فعال کردار ادا کرنے اور لوگوں کی رہنمائی کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ سید علی گیلانی نے اس نکتہ چینی کا جواب دیتے ہوئے حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والے اپنے ایک کھلے خط میں لکھا تھا کہ جسمانی کمزوری اور مختلف عوارض سے نہ ان کے دل و دماغ کی قوت ختم ہوئی ہے اور نہ ہی ان کے جذبۂ حریت میں کوئی ضعف آیا ہے۔
انہوں نے لکھا تھا کہ وہ آخری وقت تک بھارتی استعمار کے خلاف نبرد آزما رہیں گے اور اپنی قوم کی رہنمائی کا حق حسبِ استطاعت ادا کرتے رہیں گے۔ سید علی گیلانی نے اپنے خط میں حریت کانفرنس (گیلانی) کے کچھ رہنماؤں پر تنقید بھی کی تھی اور اتحاد کی غیر فعالیت پر اپنے ساتھیوں کو موردِ الزام ٹھیرایا تھا۔
]]>اسلام آباد(طاہر محبوب) پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے حال ہی میں ختم ہونے والے مالی سال 20-2019 کے دوران مجموعی طور پر 13 ارب ڈالر مالیت کے بیرونی قرض حاصل کیے۔ جو ملکی تاریخ میں حاصل کردہ قرضوں کا دوسرا بڑا حجم ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے لیے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے کے لیے قرضوں کا حصول ضروری تھا۔ حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے کہ وہ پہلے سے حاصل کردہ قرضوں کی واپسی کے لیے نئے قرض حاصل کرے۔ وزارتِ خزانہ کے جاری اعداد و شمار کے مطابق رواں سال 30 جون 2020 کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران پاکستان نے بیرونی مالیاتی اداروں اور عالمی مالیاتی فنڈز (آئی ایم ایف) سے مجموعی طور پر 13 ارب ڈالر قرض حاصل کیا۔
اگر اس میں گزشتہ مالی سال میں حاصل کردہ قرضوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو پاکستان نے گزشتہ دو مالی سالوں کے دوران 29 ارب 20 کروڑ ڈالر مالیت کے بیرونی قرضے لیے ہیں۔ جن میں سے 26 ارب 20 کروڑ ڈالر قرض وزیرِ اعظم عمران خان کے دورِ حکومت میں حاصل کیا گیا۔ اعداد و شمار کے مطابق حاصل کردہ قرضوں میں سے 19 ارب 20 کروڑ ڈالر کی رقم پہلے سے حاصل کردہ قرضوں کی واپسی کے لیے استعمال کی گئی۔
حکومت نے بیرونی مالیاتی اداروں سے 60 کروڑ 29 لاکھ ڈالر قرض لیا جب کہ حکومتی بجٹ میں اس کا ہدف 40 کروڑ 80 لاکھ ڈالر رکھا گیا تھا۔ سعودی عرب کی جانب سے ادھار تیل کی سہولت کا بھی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا گیا اور صرف 70 کروڑ 70 لاکھ ڈالر مالیت کے تیل کی خریداری کی گئی جب کہ ہدف تین ارب 20 کروڑ ڈالر تھا۔ اعداد و شمار کے مطابق چین نے گزشتہ مالی سال کے دوران 40 کروڑ 88 لاکھ ڈالر قرض کی صورت میں فراہم کیے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک نے دو ارب 80 کروڑ ڈالر قرض فراہم کیا۔ بجٹ میں اس کا ہدف ایک ارب 70 کروڑ ڈالر رکھا گیا تھا۔ تاہم قرض میں سے دو ارب 30 کروڑ ڈالر بجٹ معاونت کی مد میں استعمال کیے گئے۔ عالمی بینک کی طرف سے بھی پاکستان کو ایک ارب 32 کروڑ ڈالر قرض فراہم کیا گیا ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان کے معاون خصوصی اور ترجمان ندیم افضل چن کہتے ہیں کہ حکومت کو مسلم لیگ نواز کی حکومت میں حاصل کردہ قرضوں کی واپسی کے لیے مذید قرض لینا پڑا۔
ندیم افضل چن کےمطابق حکومت کو تحریک انصاف کے وزیراعظم کفالت پروگرام’ کی رقم کو دو گنا کرنے کے لیے بھی قرض لینا پڑا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے جب حکومت سنبھالی تو معیشت بدحالی کا شکار تھی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں جو ترقیاتی پروگرامز شروع کیے گئے اُنہیں مکمل کرنے کے لیے بھی حکومت نے قرض کا سہارا لیا۔
ماہرِ معیشت فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی کے پیشِ نظر حکومت کے لیے نئے قرضوں کا حصول ناگزیر تھا۔ لیکن معیشت سے متعلق حکومت نے اگر کوئی اچھا کام کیا ہے تو وہ بیرونی تجارتی خسارے کو کم کرنا تھا۔ تجارتی خسارہ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں 20 ارب ڈالر تھا جو تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے سال میں 10 ارب ڈالر تک لایا گیا اور اب یہ خسارہ تقریباً تین ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ جو ایک بڑی کامیابی ہے۔
فرخ سلیم کے مطابق عام آدمی حکومتی قرضوں یا خسارے کو نہیں دیکھتا بلکہ عام آدمی کے لیے آٹے چینی کی قیمت اور روزگار کے مواقع اہمیت رکھتے ہیں۔ گزشتہ دورِ حکومت میں آٹے کی فی کلو قیمت 32 روپے تھی جو اب 52 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔ اس طرح دو برسوں میں آٹے کی قیمت میں 60 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ چینی کی قیمت 55 روپے سے بڑھ کر 85 روپے ہو گئی ہے۔ بے روزگار افراد کی تعداد 40 لاکھ سے بڑھ کر 60 لاکھ ہو چکی ہے۔
جی ڈی پی کی شرح 5.8 فی صد سے کم ہو کر منفی اعشاریہ چار فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ اس طرح جی ڈی پی میں کمی کا 68 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی مدت مکمل ہوئی تو اُس وقت گردشی قرضہ 1200 ارب روپے تھا جو بڑھ کر 2400 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ ملک کا مجموعی قرضہ 30 ہزار ارب سے بڑھ کر 43 ہزار ارب تک پہنچ چکا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو عمران خان کے دور حکومت میں سوائے تجارتی خسارے کو کم کرنے کے کچھ مثبت پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔
معاشی ماہر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ موجودہ دور حکومت میں روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے جو قرضوں میں اضافے اور نئے قرضوں کی وجہ بنی۔ یہ کہہ دینا مناسب نہیں کہ گزشتہ دورِ حکومت میں لیے گئے قرضوں کی واپسی کے لیے مذید قرضے لینا پڑ رہے ہیں۔ نواز لیگ کے پانچ سالہ دورِ حکومت میں 10 ارب ڈالر سے کم کا قرضہ لیا گیا اور گزشتہ دو سالوں میں اس میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ روپے کی قدر میں کمی کا ہونا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت دو سالوں میں جاری کھاتے کا خسارہ پانچ سال کی کم ترین سطح پر لے آئی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 20-2019 میں جاری کھاتے کا خسارہ 78 فی صد کی نمایاں کمی کے ساتھ 2.96 ارب ڈالر رہ گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق ایک ہفتے کے دوران زرِ مبادلہ کے سرکاری ذخائر میں چھ کروڑ 70 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ جس کے بعد یہ حد 19 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔
زرِ مبادلہ کے سرکاری ذخائر کی مالیت 12 ارب 12 کروڑ 16 لاکھ ڈالر کی سطح پر آ گئی ہے جب کہ کمرشل بینکوں کے پاس چھ ارب 92 کروڑ 57 لاکھ ڈالر کے ذخائر موجود ہیں۔
]]>لاہور:(طاقت ڈیسک) جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں حالیہ عرصے میں بہت سی سیاسی تبدیلیاں رُونما ہوئی ہیں۔ بھارت کے چین اور دیگر ہمسائیہ ملکوں سے تعلقات میں سرد مہری کے بعد چین کے ایران کے ساتھ اربوں ڈالر کے اقتصادی معاہدے کے بعد خطے کی سیاست ایک نیا رُخ اختیار کر گئی ہے۔
چند روز قبل پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد سے بھی ٹیلی فون پر بات کر کے تعلقات میں بہتری لانے کی پیش کش کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں چین اپنا اثر و رُسوخ بڑھانے کے علاوہ بھارت کے قریب سمجھے جانے والے ملکوں سے تعلقات کو فروغ دے کر امریکہ کو چیلنج کر رہا ہے۔
حال ہی میں ایران نے بھارت کو چاہ بہار ریل منصوبے سے الگ کر کے چین کے ساتھ 25 سال پر مشتمل 400 ارب ڈالر کے اقتصادی معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔ ایران کی بندرگاہ چاہ بہار سے زاہدان اور افغانستان کی سرحد تک اس ریلوے منصوبے پر 2016 میں بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی، ایران کے صدر حسن روحانی اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے دستخط کیے تھے۔
یہ معاہدہ پاکستان اور چین کے درمیان گوادر بندرگاہ کی تعمیر اور ترقی کے لیے طے پانے والے معاہدے کے بعد عمل میں آیا تھا۔ عالمی تجارت کی اہم ترین گزرگاہیں خلیج فارس اور بحیرہ ہند کا آپس میں اکثر موازنہ کیا جاتا ہے۔ ماہرین ان دونوں بندرگاہوں کو بھارت اورچین میں جاری مقابلے کی دوڑ کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
گوادر بندرگاہ کی تکمیل کے بعد اب یہ پاکستان، افغانستان اور چین کی سمندری تجارت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اسے دنیا کی سب سے زیادہ گہری بندرگاہ کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیاں چاہ بہار اور اس کو ملانے والے زمینی راستوں کی تعمیر میں حائل رہی ہیں۔
لیکن اب بھارت کی جانب سے اس منصوبے میں تاخیر کے باعث ایران نے بھارت کو اس سے علیحدہ کر دیا۔ اس دوران چین اور ایران نے ایک 25 سالہ اسٹرٹیجک معاہدے کا اعلان کیا جس کے تحت چین ایران میں چار سو ارب ڈالر کی سرمایہ کار ی کرے گا۔ ماہرین کے مطابق یہ دو بڑے اعلانات خطے میں بہت سی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
ایران اور بھارت کے تعلقات میں کئی سالوں سے گرمجوشی رہی ہے۔ ایران پر امریکہ کی طرف سے عائد پابندیوں کے باوجود بھارت ایران سے خام تیل برآمد کرتا رہا ہے۔ ایران کی امریکی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی بھی ملک سے تجارتی روابط بڑھانا اور اس کے ذریعے زر مبادلہ کمانا ایک اہم ترجیح رہی ہے۔ اس تناظر میں ماہرین کے مطابق ایران کا بھارت کو چاہ بہار منصوبے سے الگ کرنے کا فیصلہ کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے۔
جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے معاملات پر نظر رکھنے والے ماہر کامران بخاری کہتے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب بھارت کے امریکہ سے تعلقات کئی شعبوں میں بڑھ رہے ہیں نئی دہلی کو واشنگٹن کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ ایران سے تعلقات استوار نہ کرے۔ امریکہ خاص طور پر یہ نہیں چاہے گا کہ بھارت ایران سے ان شعبوں میں تعلقات بڑھائے جن مین تعاون سے ایران پر عائد امریکی پابندیوں کے دباؤ میں کمی واقع ہو۔
ماہرین اس بات کو بھی اہمیت دیتے ہیں کہ بھارت کی ایران اور افغانستان میں کم ہوتی ہوئی دلچسبی کا تعلق افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا سے بھی ہو سکتا ہے۔ جنوبی ایشیا کے اُمور کے ماہر اور مصنف شجاع نواز کہتے ہیں کہ خطے میں بیک وقت کئی تبدیلیاں آ رہی ہیں جن میں امریکہ کی افغانستان پالیسی، چین کا تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کے علاوہ چین، بھارت کشیدگی بھی ہے۔
چین کی بڑھتی ہوئی کشیدگی اور بھارت کے نیپال اور بنگلادیش سے بگڑتے ہوئے تعلقات بھی خطے کی سیاست کو تبدیل کر رہے ہیں۔ اس ساری صورتِ حال میں ایک اہم ترین پہلو یہ بھی ہے کہ نئی دہلی اس وقت اندرونی طور پرخلفشار کا شکار ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی تمام تر توجہ اندرونی مسائل پر ہے اور وہ خطے میں تعلقات کی پرواہ کیے بغیر کشمیر اور متنازع شہریت بل جیسے معاملات میں یادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔
ایسے حالات میں جب ایران کی عالمی سطح پر تنہائی بڑھتی دکھائی دے رہی تھی اس کے اور چین کے درمیان طے پانے والے 400 ارب ڈالر کے 25 سالہ معاہدے نے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ اس بڑے منصوبے سے خطے پر دیرپا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں کیوں کہ خطے کے علاوہ وسیع تر تناظر میں یہ معاہدہ امریکہ اور چین میں جاری تجارتی جنگ کا حصہ بھی ہو سکتا ہے۔
اس بڑی پیش رفت سے ایران کے زرمبادلہ سے متعلق کچھ مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ چین بھارت سے تو آگے بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے لیکن چین فی الحال امریکہ کا عالمی سیاست اور سفارت کاری کے اثرورسوخ کے تناظر میں نعم البدل ثابت نہیں ہو سکتا۔ ہمیں اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ چین کبھی امریکہ کی طرح دوسرے ملکوں کو امداد نہیں دیتا بلکہ وہ اپنی کمپنیوں کے ذریعے سرمایہ کاری اور ملکوں کو قرضے دیتا ہے، لہذٰا ایران کو یہ قرضے واپس کرنا ہوں گے جو اس کی معیشت پر دباؤ بڑھانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
چین کے مطابق اس کے ایران سے ترقیاتی معاہدے امریکی پابندیوں سے کہیں پہلے طے پائے تھے، لہذٰا ان پر کسی قسم کی پابندیوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔ چین طویل المدتی خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس کے ایران سے معاہدے کے دو بڑے مقاصد دکھائی دے رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ چین صدر شی جن پنگ کے ون بیلٹ ایند روڈ منصوبے کو توسیع دینا جس میں ایران کے ذریعے وہ دیگر ممالک سے تجارت کو فروغ دے گا۔
چین اصل میں “ون بیلٹ ون روڈ” منصوبے کو رواں صدی کا سب سے بڑا ترقیاتی منصوبہ سمجھتا ہے، جس کے تحت چین دنیا کے 66 ملکوں کو تجارتی سطح پر سڑک اور ریل کے ذریعے جوڑنا چاہتا ہے۔ دوسرا یہ کہ چین یہ نہیں چاہے گا کہ مستقبل میں کسی خراب صورتِ حال یا جنگ کی حالت میں بھارت اس کی بحیرہ ہند میں نقل و حمل میں رکاوٹ بنے اور تجارت میں خلل ڈالے۔ لہذٰا وہ متبادل راستوں کی تلاش جاری رکھے گا۔ ماہرین کے مطابق ایران کے مقابلے میں چین کو ان معاہدوں سے زیادہ فائدہ ہو گا۔
پھر بھی سوال یہ ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ اور پاکستان کو اس کا کیا فائدہ ہو گا. بظاہر ایران کا بھارت کو اپنے ایک اہم منصوبے سے الگ کرنا، چین اور ایران کے درمیان معاہدہ طے پانا اور افغانستان میں امن عمل کے امکانات سے پاکستان کی خارجہ پالیسی بہتر نظر آ رہی ہے۔ لیکن ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات میں کوئی بھی بات حتمی اور مستقل نہیں ہوتی۔
یہ صورتِ حال پاکستان کے لیے کوئی کچھ فائدہ مند دکھائی دیتی بھی اور نہیں بھی اس سے فائدہ پاکستان کو خود اٹھانہ ہے اور سوچ سمچ کر فیصلے کرنے ہیں۔ اول تو یہ کہ پاکستان اس وقت مالی اور اقتصادی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ دوسرا یہ کہ بھارت نے کشمیر کی حیثیت تبدیل کر کے پاکستان کو ایک کٹھن خارجہ پالیسی کے مسئلے سے دوچار کر رکھا ہے۔
چین اور ایران کے معاہدے سے اور چاہ بہار کی تکمیل سے کیا پاکستان کی خطے میں اہمیت کم ہو جائے گی؟ یہ سوال بھی لوگوں کے ذہن میں ابھر رہا ہے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہے پاکستان کی اپنی اسٹرٹیجک اہمیت بدستور برقرار رہے گی کیوں کہ مستقبل میں یہ چین کی بڑی معیشت کے لیے چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کی صورت میں ون بیلٹ اینڈ روڈ کا ایک اہم حصہ رہے گا۔
پاکستان کو اپنی جغرافیائی حیثیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی اقتصادی ترقی کی رفتار کو تیز تر کرنا ہو گا۔ خاص طور پر بلوچستان اور سندھ میں ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جس سے لوگوں کو روزگار ملے اور ملک کی برآمدات میں اضافہ بھی ہو سکے۔ ایران اور چین کے معائدہ سے پاکستان کو کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ اس سے ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ بھارت کا ایران اور افغانستان سے اثر رسوخ ختم ہو کر رہا جائے گا جس سے کلبھوشن جیسے را کے ایجنٹوں سے پاکستان محفوظ ہو جائے گا۔
]]>لاہور(طاہر محبوب سے) پاکستان کو تتہا کرنا والا بھارت خطے میں تنہا ہوگیا. سری لنکا، بنگلہ دیس، نیپال، افغانستان کے بعد اب ایران نے بھی بھارت کے ساتھ تمام کاروباری معاہدے توڑ دئیے. چین اور پاکستان ایک ساتھ بھارت کو تنہا کرنے کی پالیسی پر بڑی تیزی سے کامیبایاں سمیٹ رہیں ہیں.
سنہ 2014 کے ستمبر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اپنی آبائی ریاست گجرات کی راجدھانی احمد آباد میں چینی صدر کے ساتھ جھولے میں جھولتے ہوئے نہایت بے تکلفی سے بات چیت کرتے نظر آئے۔ باہمی معاہدوں کا ایک سلسلہ چل پڑا تھا اور بھارتی چینلوں پر مودی کی ’کامیاب ڈپلومیسی‘ کا ڈھول دھڑادھڑ بجنے لگا۔ چین جیسی پراسرار اور کم گو طاقت کو شیشے میں اتارنے کے لیے بی جے پی نے مودی کو مہادیو کا درجہ دیا۔ ملاقات کے کئی روز بعد یہ انکشاف ہوا کہ جب مودی شی جن پنگ کے ساتھ پینگیں بڑھا رہے تھے، چینی فوج دراندازی کر کے بھارت کے زیر انتظام لداخ کے چُومار اور دمچوک خطوں میں خیمہ زن ہو گئی تھی۔
آج چین مشرقی لداخ کے سرحدی علاقوں میں کئی کلومیٹر اندر گھس آیا ہے اور واپسی کا نام نہیں لے رہا ہے بلکہ اب تو بیجنگ پوری وادی گلوان پر دعویٰ جتلا رہا ہے۔ گو کہ تازہ مرحلہ سمیت اب تک مقامی کمانڈروں کی سطح پر مذاکرات کے تین ادوار ہوئے اور چھ جون کومتعدد مقامات پر پیچھے ہٹنے پر اتفاق بھی ہوا تھا تاہم بات آگے نہ بڑھ سکی بلکہ الٹا کشیدگی بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔
نیپال، بھوٹان، مالدیپ، سری لنکا اور بنگلہ دیش وہ ممالک ہیں جو کل تک دہلی کی بولی بولتے تھے لیکن چین اور پاکستان نے ان چاروں ممالک کو سی پیک میں شامل کر کے ان کو خودمختار ریاست بنا دیا جس سے بھارت کا کنٹرول ان پر ختم ہو گیا اب یہ ممالک چینی احسانات تلے دب چکے ہیں اور اب بھارت کے لیے مسلسل پریشانی کا باعث بنتے چلے جا رہے ہیں۔
چین اور پاکستان اپنے اہداف کے حصول کی جانب صحیح سمت میں گامزن ہے۔ آگے چل کر کیا واقعی چین لداخ پر چڑھائی کے مطلوبہ مقاصد حاصل کر پائے گا، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم موجودہ حالات میں اب بھارت کی سبھی سرحدیں غیر محفوظ بن چکی ہیں۔ تاہم قوم پرستی کا جو ہائی وولٹیج ڈراما گذشتہ چند برسوں میں بھارت میں کھیلا گیا، وہ شاید ہی نریندر مودی کو اس کی اجازت دے۔
اس صورت حال میں مبصرین کے نزدیک مودی کے ہاتھ بندھے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور اُنہیں کسی طرح سے اس کشیدگی کوکنٹرول کرنا ہو گا تاکہ برفانی ہوائیں دونوں جانب سے افواج کو بیس کیمپوں میں واپس بھاگنے پر مجبور کر دیں اور پھر اگلے سال موسم بہار کی آمد تک دیکھا جائے گا کہ چینی اژدہا کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
اس خطے کی صورتحال کے پیش نظر پاکستان نے ایرانی حکومت کے ساتھ کچھ معائدے کیے اور چین اور ایران کے درمیان کچھ ایسے معائدے کروائیں جس سے بھارت کے مودی کو بہت بڑا جھٹکا لگا اور ابھی تک کوئی بھارتی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا. ایرانی حکومت نے چابہار ریل منصوبے سے بھارت کو نکال باہر کردیا۔ بھارت اور ایران نے 2016 میں افغانستان کی سرحد کے ساتھ چابہار بندرگاہ سے زاہدان تک ریل لائن تعمیر کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
چار سال بعد ایرانی حکومت نے فنڈز اور منصوبہ شروع کرنے میں مسلسل تاخیر کا نوٹس لیتے ہوئے ہندوستان کو منصوبے سے خارج کردیا اور اب یہ منصوبہ خود تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ پیش رفت ایسے وقت سامنے آئی جب چین نے ایران کے ساتھ 25 سالہ 400 بلین ڈالرز مالیت کے اسٹریٹجک شراکت داری کے معاہدے کو حتمی شکل دے دی ہے۔
بھارت کو امریکی پابندیوں سے خوف تھا جس کے باعث اس نے چابہار میں معاہدے کے باوجود کام شروع نہیں کیا۔ ایران اب بھارت کی مالی مدد کے بغیر خود ہی اس پروجیکٹ پر کام شروع کرے گا اور چابہار کو ہلکی رفتار سے ترقی دی جائے گی۔ بھارت میں اپوزیشن جماعت کانگریس نے اسے اخراج کو بھارت کی بڑی ناکامی قرار دیتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی کی سفارتی شکست قرار دیا ہے۔
ایران کے وزیر ٹرانسپورٹ محمد اسلامی نے ریلوے ٹریک بچھانے کے منصوبے کا افتتاح کردیا ہے جو مارچ 2022 میں مکمل کر لیا جائے گا۔ چین کے پاس ایران تک ریل روڈ پہلے ہی موجود ہے جس کے ساتھ ساتھ مشہد کو بھی چابہار سے ریل روڈ سے جوڑا جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ چین اب کاشغر سے چابہار تک ریل روڈ اور پھر آگے سمندر کے راستے استعمال کرسکتا ہے.
امریکا نے چابہار سے زاہدان تک ریلوے لائن پروجیکٹ کو پابندیوں سے چھوٹ دی تھی، اس کے باوجود ہندوستان اس منصوبے میں وقت ضائع کرنے اور تاخیری حربے کرتا رہا تاہم حیرت ایران پر ہے جسے بھارت سے چھٹکارا پانے میں زیادہ دیر لگ گئی۔ ایران میں یہ واحد بڑا اہم منصوبہ تھا جو بھارت کی شراکت سے بن رہا تھا. بھارت اس منصوبے سے پاکستان کی معیشت پر اثرانداز ہونا چاہتا تھا مگر امریکی پابندیوں کے خوف سے گھٹنے ٹیک دیے۔
حال ہی میں چین نے ایران کے ساتھ 25 سالہ 400 بلین ڈالرز مالیت کے اسٹریٹجک شراکت داری کے معاہدے کو حتمی شکل دی ہے جس کے تحت بیجنگ ایران میں مواصلات، بینکنگ، صنعت، ریلوے لائنز اور بندرگاہوں کی تعمیر کے لیے مدد کرے گا جس کے عوض ایران چین کو 25 سال تک سستا تیل فراہم کرے گا۔
بھارت کے نیپال کے ساتھ ابھی تعلقات کافی خراب دور سے گزر رہے تھے کہ نیپال نے ایک اور معاذ پر بھارت کو ہلا کر رکھ دیا. پی شرما نیپالی وزیر اعظم نے بھارتی ہندوؤں پر الزام لگایا کہ شری رام کی اصل جائے پیدائش، یعنی ’’اصل ایودھیا‘‘ نیپال میں تھی لیکن بھارتی ہندوؤں نے ’’ثقافتی توسیع پسندی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اترپردیش میں ’’جعلی‘‘ ایودھیا بنا کر اسے دنیا بھر میں مشہور کردیا۔ ’’شری رام کا اُتر پردیش سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ ان کی حکومت نیپال میں موجودہ بالمیکی آشرم کے قریب تھی۔‘‘
بھارت کے اس وقت بھوٹان کے علاوہ تمام ممالک سے تعلقات بہت خراب دور سے گزر رہے ہیں اور اب ایران نے بھی بھارت کو آنکھیں دیکھانا شروع کردی ہیں. اگر یہ سب کچھ ایسا ہی چلتا رہا تو 1 یا 2 سال میں بھارت بہت کمزور ریاست بن جائے گی. پاکستان نے بھارت کو ایسا گھیراہے کہ اب بھارت سرکار اپنا سارا پیسہ دفاع پر لگانے پر تلی ہوئی ہے. بھارت دنیا کا سب سے بڑا ملک ہےجو سب سے زیادہ اسلحہ خریدہ ہے. بھارت دو محاز پر جنگ کرنے کے بھی قابل نہیں پاکستان اور چین کی اسڑیچک پالیسی نے بھارت سرکار کی نیند کواُڑ کر رکھا دیا ہے.
اس وقت جو کچھ بھارت کےخلاف ہو رہا ہے یہ سب مودی کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے. مودی نے پاکستان کو تنہا کرنے کی پالیسی پر الیکشن لڑا اور الیکشن میں چین کے خلاف بھی کافی باتیں کی. جس سے بھارتی عوام سمجھ بیٹھی مودی کوئی بھگوان ہے جو اکھنڈ ہندوستان کا سپنا پورا کریں گے۔ لیکن صورتحال کچھ اکھنڈ بھارت کے خلاف ہی ہوگئی.
سکم سے لے کر ہماچل پردیش، اتر کھنڈ، اروناچل پردیش اور لداخ تک چین کے ساتھ ملنے والی سرحد کے علاوہ لداخ کے ایک ہی دوسرے حصہ اور جموں وکشمیر میں پاکستان کے ساتھ لگنے والی سرحد کشیدہ بن چکی ہیں جو کوئی اچھی یا اطمینان بخش صورت حال قرار نہیں دی جا سکتی کیونکہ دفاعی اعتبار سے بیجنگ اور نئی دہلی کا کوئی موازنہ نہیں ہے اور ذرا سی بھی غلطی ڈریگن کو برہم کر سکتی ہے۔ پاکستان تو پہلے ہی موقع کی تلاش میں ہے.
تاہم مبصرین سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں بھارت کے لیے واحد اطمینان بخش چیز یہ ہے کہ چین جنگ نہیں چاہے گا اور اگر بھارت سرکار خاموشی سے بیجنگ کو بڑا بھائی تسلیم کرتے ہوئے عالمی سیاست، تجارت، معیشت میں کچھ رعایات اور کچھ ٹھوس یقین دہانیاں فراہم کرتی ہے تو شاید چین اپنی پیش قدمی روک دے گا۔ تاہم قوم پرستی کا جو ہائی وولٹیج ڈراما گذشتہ چند برسوں میں بھارت میں کھیلا گیا، وہ شاید ہی نریندر مودی کو اس کی اجازت دے۔
اس صورت حال میں مبصرین کے نزدیک مودی کے ہاتھ بندھے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور اُنہیں کسی طرح سے اس کشیدگی کو موسم سرما کی آمد تک روکنا ہو گا تاکہ برفانی ہوائیں دونوں جانب سے افواج کو بیس کیمپوں میں واپس بھاگنے پر مجبور کر دیں اور پھر اگلے سال موسم بہار کی آمد تک دیکھا جائے گا کہ چینی اژدہا کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
مودی نے جو کچھ بھارت کے ساتھ کیا اس کو اس کی قوم کبھی معاف نہیں کرے گی چین اور پاکستان نے جس طرح انتہائی خاموشی کے ساتھ بھارت کے پڑوس میں ان ممالک کو اپنی طرف کر دیا جو کل تک نئی دہلی کی کالونیاں تصور کی جاتی تھیں. مودی نے اپنی پالیسیاں نہ بدلی تو بہت جلد بھارت کو ٹوٹنے سے کوئی نہیں روک سکے گا.
لاہور(طاقت ڈیسک) پاکستان کے مایہ ناز لڑاکا طیارے ’’جے ایف 17 تھنڈر‘‘ کے جدید ترین ورژن ’’بلاک 3‘‘ کو پاک فضائیہ کے حوالے کرنے کی تیاری آخری مرحلے میں ہے. جو اس سال کے آخر تک پاک فضائیہ کے استعمال میں ہونگے. ’’جے ایف 17 تھنڈر‘‘ بلاک 3 چوتھی نسل کے لڑاکا طیارہ ہے جو اب پاک فضائیہ کے پاس ہونگے اور اپنی صلاحیتوں میں امریکی ایف 16، ایف/اے 18 اور ایف 15؛ روس کے سخوئی 27؛ اور فرانس کے میراج 2000 جیسے مشہور لڑاکا طیاروں تک کو پیچھے چھوڑ دیا۔
جے ایف 17 ’’بلاک 3‘‘ کا انجن زیادہ طاقتورہے جس کی بدولت یہ آواز کے مقابلے میں دوگنی سے بھی زیادہ رفتار’’میگ دوہزاز‘‘سے پرواز کرسکتا ہے۔ اس میں خاص قسم کے کم وزن لیکن مضبوط مادّے استعمال کئے گئے ہیں جو ایک طرف اس کا مجموعی وزن زیادہ بڑھنے نہیں دیتا جبکہ دوسری جانب اسے دشمن ریڈار کی نظروں سے بچنے میں مدد بھی ملتی ہے۔
جے ایف 17 ’’بلاک 3‘‘ ایسے جدید ترین ریڈار (اے ای ایس اے ریڈار) سے بھی لیس ہے جسے جام کرنا دشمن کے فضائی دفاعی نظام (ایئر ڈیفنس سسٹم) کےلئے انتہائی مشکل ہے۔ پائلٹ کا ہیلمٹ جدید ٹیکنالوجی کا شاہکارہے جو طیارے کے اطراف سے بہتر واقفیت کے علاوہ ہتھیاروں پر بہترین کنٹرول کی صلاحیت میں مدد کرتا ہے۔
جے ایف 17 تھنڈر ’’بلاک 3‘‘ میں طویل فاصلے پر موجود زمینی اہداف کا بہتر نشانہ لینے کےلئے خصوصی آلہ (ٹارگٹنگ پوڈ) بھی اضافی طور پر نصب کیا گیا ہے جبکہ اسے زمینی یا فضائی اہداف کو اُن سے خارج ہونے والی گرمی کی بنیاد پر شناخت کرنے اور نشانہ باندھنے والے نظام (آئی آر ایس ٹی) سے بھی ممکنہ طور لیس کیا گیا ہے۔
اپنے ’’بلاک 2‘‘ ورژن کی طرح جے ایف 17 ’’بلاک 3‘‘ میں بھی دورانِ پرواز ایندھن بھروانے کی سہولت ہوگی جس کے باعث یہ 2,500 کلومیٹر دور تک کسی ہدف کو نشانہ بناسکے گا۔ یہ فضا سے فضا اور فضا سے زمین تک مار کرنے والے دوسرے میزائلوں کے علاوہ نظر کی حد سے دُور تک مار کرنے والے (بی وی آر) میزائل سے بھی لیس ہے۔
پاکستان کی برّی افواج کےلئے بنائے گئے ’’بابر کروز میزائل‘‘ میں ترامیم کے بعد اسے ’’رعد کروز میزائل‘‘ کی شکل دے دی گئی ہے جو روایتی یا غیر روایتی اسلحے سے لیس کرکے جے ایف 17 ’’بلاک 3‘‘ میں نصب کیا جائے گا اور جس کے باعث سینکڑوں کلومیٹر دُور زمینی اہداف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔
جے ایف 17 ’’بلاک 3‘‘ کے کاکپٹ میں 2 افراد کے علاوہ سنگل سیٹ کی بھی گنجائش ہے۔ اندازہ یہ بھی ہے کہ اب تک اس پر کام مکمل ہو چکا ہے متوقع طور پر ان لڑاکا طیاروں کو پاک فضائیہ کے سپرد کرنے کا سلسلہ اگست 2020 سے شروع ہوجائے گا۔
ان تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ یہ بہت کم خرچ لڑاکا طیارہ بھی ہے۔ وہ اس طرح کہ (وکی پیڈیا کے مطابق) جے ایف 17 تھنڈر ’’بلاک 1‘‘ کی فی طیارہ لاگت 25 ملین ڈالر (ڈھائی کروڑ ڈالر) تھی؛ ’’بلاک 2‘‘ پر 28 ملین ڈالر (2 کروڑ 80 لاکھ ڈالر) فی طیارہ لاگت آئی؛ جبکہ ’’بلاک 3‘‘ کے بارے میں اندازہ ہے کہ اس کے ہر پیداواری یونٹ کی ممکنہ لاگت 32 ملین ڈالر (3 کروڑ 20 لاکھ ڈالر) ہوگی۔
اگر اس لاگت کا موازنہ پرانے قسم کے ایف 16 طیاروں (بلاک 52) سے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کی اصل قیمت 20 ملین (2 کروڑ) ڈالر فی طیارہ کے لگ بھگ ہے لیکن یہ پاکستان کو 34 ملین (3 کروڑ 40 لاکھ) ڈالر فی طیارہ کے حساب سے فروخت کئے گئے۔ کچھ ماہ پہلے امریکہ سے اسی پرانی قسم کے مزید ایف 16 طیاروں کی خریداری کا معاملہ بھی اسی لئے کھٹائی میں پڑگیا کیونکہ اب کی بار امریکہ نے پاکستان سے ان کی فی طیارہ قیمت 87 ملین (8 کروڑ 70 لاکھ) ڈالر سے بھی کچھ زیادہ طلب کرلی تھی جو ایف 16 کی پچھلی قیمت سے بھی ڈھائی گنا زیادہ تھی۔
کچھ ماہ پہلے بھارت نے فرانس سے 36 عدد ’’رافیل‘‘ لڑاکا طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا جس کے تحت رافیل کی فی طیارہ قیمت تقریباً 242 ملین (24 کروڑ 20 لاکھ) ڈالر طے کی گئی ہے جبکہ اس معاہدے کی مجموعی لاگت 8 ارب 70 کروڑ ڈالر ہے۔
ان تمام اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہے کہ جے ایف 17 تھنڈر ’’بلاک 3‘‘ اپنی خصوصیات اور صلاحیتوں کے اعتبار سے دنیا کے جدید لڑاکا طیاروں کے ہم پلّہ ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کےلئے کم خرچ بھی ہے۔ ان سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ جے ایف 17 ’’تھنڈر‘‘ کی بدولت پاکستان نے مقامی طور پر عسکری طیارہ سازی میں خود کفالت کی طرف قدم بڑھانا شروع کردیا ہے۔
اس وقت بھی جبکہ یہ سطور قلم بند کی جارہی ہیں، جے ایف 17 تھنڈر کے منصوبے میں ٹیکنالوجی کے اعتبار سے پاکستان کا حصہ 60 فیصد تک پہنچ چکا ہے اور مستقبل میں یہ اور بھی زیادہ ہونے کی توقع ہے۔
جے ایف 17 ’’بلاک 3‘‘ پاکستانی انجینئروں کا مثالی اور انتہائی قابلِ فخر کارنامہ ہے جس کےلئے پاک فضائیہ کے دفاعی منصوبہ ساز اور پاکستان ایئروناٹیکل کمپلیکس (پی اے سی) کے انجینئر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق پی اے سی میں جے ایف 17 تھنڈر کے اس سے بھی زیادہ جدید ورژن ’’بلاک 4‘‘ پر ابتدائی کام کا آغاز ہوچکا ہے۔ اگرچہ اس بارے میں تفصیلات دستیاب نہیں لیکن امید کی جاسکتی ہے کہ اپنے ’’بلاک 4‘‘ کے ساتھ جے ایف 17 بھی پانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں میں شامل ہوجائے گا۔
]]>لاہور(طاہر محبوب سے) آم کی 19 لاکھ میٹرک ٹن مجموعی پیداوار کے ساتھ پاکستان دنیا بھر میں پانچویں نمبر پر ہے۔ خوشبو، رنگ، ذائقہ اور مٹھاس سے بھرپور ہونے کی وجہ سے پاکستانی آموں کو دنیا بھر میں ہاتھوں ہاتھوں لیا جاتا ہے۔
گزشتہ برس پاکستان نے ایک لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن آم برآمد کیا تھا جو ایک ریکارڈ ہے۔ پاکستان سے آم متحدہ عرب امارات، ایران، افغانستان، امریکہ، یورپ اور دیگر ممالک میں 55 فی صد بحری، 20 فی صد فضائی اور 25 فی صد زمینی راستوں سے ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ متحدہ عرب امارات پاکستانی آموں کا سب سے بڑا خریدار ہے جب کہ کل برآمد کا لگ بھگ 20 فی صد ایران جاتا ہے۔
رواں برس کرونا وبا کی وجہ سے حالات یکسر مختلف ہیں اور آم کی ایکسپورٹ کو سرحدوں کی بندش، پروازوں میں کمی اور فریٹ میں اضافے کی وجہ سے شدید دھچکا پہنچا ہے۔ گزشتہ برس آموں کی ریکارڈ برآمد سے ملک کو 90 سے 95 ملین ڈالر کا زرِ مبادلہ حاصل ہوا تھا۔ تاہم اس سال حالات بہت پیچیدہ ہیں اور آموں کی برآمد میں 50 فی صد تک کمی کا خدشہ ہے۔
کرونا کی وبا اور اس کے باعث پیدا ہونے والی غیر یقینی کے باعث اس سال آم کی ایکسپورٹ 70 سے 75 میٹرک ٹن تک رہنے کا امکان ہے جس سے نہ صرف ملکی زرِ مبادلہ میں کمی ہوگی بلکہ بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوگا۔ کرونا وبا کی وجہ سے فضائی، بحری اور زمینی راستے بند ہیں۔ اور جن چند ممالک کے لیے پروازیں دستیاب ہیں ان کے فریٹ ریٹ میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ عالمی منڈی کساد بازاری کا شکار ہے اور کئی مقامات پر مکمل لاک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے مارکیٹیں بھی بند ہیں۔
یورپی مارکیٹ کے لیے جو فریٹ گزشتہ برس 200 روپے کلو تھا اب بڑھ کر 550 روپے فی کلو ہوگیا ہے۔ اسی طرح خلیجی ممالک کے لیے فریٹ ریٹ 90 روپے سے بڑھ کر 250 روپے فی کلو ہوگئے ہیں اور خریدار بھی نہیں ہیں۔ ایران و افغانستان کی سرحد بند ہونے پر دونوں ممالک پاکستانی آموں کی بڑی مارکیٹ ہیں۔ لیکن سرحد بند ہونے کی وجہ سے برآمد کنندگان کی 400 ملین روپے کی کنسائنمنٹس خراب ہو رہی ہیں۔ حکومت نے مارک اپ میں کمی کے علاوہ ایکسپورٹرز کی کسی قسم کی مدد نہیں کی۔
حالیہ دنوں میں حکومت اور آم کے ایکسپورٹرز کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنے والے آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹ ایسوسی ایشن کے مطابق ایران اور افغانستان کو زمینی راستے سے آموں کی برآمد جون میں ہی شروع کردی گئی تھی۔ قومی ایئر لائن نے آموں کے ایکسپورٹرز کو مانچسٹر، فرینکفرٹ اور لندن کے لیے رعایتی فریٹ اور بہتر سہولیات کی یقین دہانی کرائی ہے جس کے بعد فضائی راستے سے یورپی ممالک کو آموں کی ایکسپورٹ جلد بحال ہونے کی توقع ہے۔ ان اقدامات کے باوجود بھی رواں برس پاکستان سے آم کی برآمدات زیادہ سے زیادہ 80 ہزار میٹرک ٹن تک ہی رہے گی۔
پاکستان میں آم کی مجموعی پیداوار میں مسلسل پانچ برسوں سے کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مقامی باغات کی پیداواری صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ موسم میں تبدیلی کے باعث آم کی فصل تیار ہونے میں دو ہفتے کی تاخیر ہو رہی ہے اور آم پہلے کے مقابلے میں اب مختلف قسم کی بیماریوں کا جلد شکار ہوکر خراب ہو جاتے ہیں۔ ان عوامل کی وجہ سے رواں برس 51 فی صد تک آم کی پیداوار کم ہوئی ہے۔
موسمی تغیرات کے آم کی فصل پر مضر اثرات کا جائزہ لینے کے لیے ملک میں تحقیقی کام کا فقدان ہے۔ ان کے بقول ایک جامع ریسرچ کے ذریعے پالیسی مرتب کر کے کاشت کاروں کی رہنمائی کی جائے۔ وژن 2023 کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس شعبے میں تحقیق اور ڈیولپمنٹ کے لیے ایک روڈ میپ دیا ہے جس پر عمل کرکے زراعت کو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔
اس صورتِ حال سے آم کے درآمد کنندگان بھی خوش نہیں۔ ایک طرف فریٹ میں اضافہ ہوگیا ہے تو دوسری طرف افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحدیں بند ہونے اور دیگر ممالک کے لیے محدود پروازوں کے باعث پاکستانی آم اس وقت زیادہ تر متحدہ عرب امارات میں ہی برآمد کیا جا رہا ہے جس کے باعث امارات میں آم کی قیمت بہت کم ہوگئی ہے۔ ایسے میں ایک امپورٹر اضافی فریٹ کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔
پانی کی کمی اور موسمی تغیرات آم کی پیداوار میں کمی کا باعث بن رہے ہیں لیکن کسانوں کی کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے مزدور بھی دستیاب نہیں. ایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے مزید اخراجات برداشت کرنا اب کسانوں کی بس کی بات نہیں. آموں کو درخت سے اتارنا اور اس کی درجہ بندی کرکے لکڑی یا پلاسٹک کی پیٹیوں میں حفاظت سے رکھنا ایک ہنر ہے اور اس کام کے ماہر بیشتر مزدور مارچ میں جنوبی پنجاب سے سندھ کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک مزدور آمد و رفت بند ہونے کی وجہ سے ٹرکوں اور نجی گاڑیوں میں چھپ چھپا کر بہ مشکل سندھ پہنچے. اس طریقے سے دگنا کرایہ خرچ کے منزل تک پہنچے ہیں اس لیے مزدوری بھی 15 ہزار سے بڑھا کر 20 ہزار لے رہے ہیں۔
آم کی پیداوار اور ایکسپورٹ میں کمی سے بے روزگاری میں اضافے کے بھی خدشات منڈلا رہے ہیں۔ ایف پی سی سی آئی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے مطابق آم کی فصل تیار ہونے کے بعد اسے درخت سے اتارنے، پیکنگ، نقل و حمل، ٹیسٹنگ، پروسیسنگ، کیمیکل واشنگ اور برآمد کرنے کے مراحل سے 10 سے 15 لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ مجموعی پیداوار اور ایکسپورٹ میں کمی سے لگ بھگ پانچ لاکھ سے زائد افراد کا روزگار یا تو ختم ہوگیا ہے یا شدید خطرے سے دوچار ہے۔
برآمدات زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے ایکسپورٹ کوالٹی آم اس بار مقامی بازاروں میں دستیاب ہیں اور ان کی قیمت بھی مناسب ہے۔ تاہم اندرونِ ملک لاک ڈاؤن اور بازاروں کے مختصر اوقات کار آم کی آزادانہ فروخت میں آ ڑے آرہے ہیں۔ اس صورتِ حال سے فائدہ اُٹھانے کے لیے کئی نوجوان ایکسپورٹرز اور دیگر افراد مقامی سطح پر آم کی فروخت کے لیے “ای کامرس” کو آزما رہے ہیں اور ویب سائٹس اور فیس بک پیجز کے ذریعے صارفین کو گھر بیٹھے آم فراہم کر رہے ہیں۔
]]>تحریر :خان فہد خان
آبی مسائل کے حوالے سے پاکستان انتہائی خطرناک صورت حال سے دوچار ہے۔پاکستان میںکبھی بارشیں کم ہونے کی وجہ سے قحط سالی کی صورت حال بن جاتی ہے توکبھی بارشیں زیادہ ہونے سے سیلاب آتے ہیں جس سے لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ اور اربوں روپوں کا ملک کو نقصان ہوتا ہے۔ صوبوں کے مابین دریاؤں کے پانی کو تقسیم کرنے والے ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی ارسا کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آبی ذخائر نہ بننے کی وجہ سے سالانہ 21 ارب ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں شامل ہو جاتا ہے۔پانی ذخیرہ کرنے کا بندوبست نہ ہونے وجہ سے پاکستان سے سالانہ 29 ملین ایکٹر فٹ پانی سمندرمیں گرتا ہے جبکہ دنیا بھر میں یہ اوسط شرح 8.6 ملین ایکٹر فٹ ہے۔ارسا نے سینٹ کے پالیسی فورم کے اجلاس میں بتایا تھا کہ پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کیلئے منگلا ڈیم جیسے تین بڑے ڈیمز کی تعمیر وقت کی اہم ضرورت ہیںجبکہ پاکستان میں پہلے سے تعمیرآبی ذخائر میں مٹی بھرنے سے انکی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی کم ہورہی ہے۔دوسری جانب آئی ایم ایف، یو این ڈی پی اور دیگر اداروں کی مختلف رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اور 2040 تک پاکستان خطے کا سب سے کم پانی والا ملک بن سکتا ہے۔پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے ۔پاکستان کو ملکی اور غیرملکی اداروں کی جانب سے گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل مستقبل قریب میں پانی کی قلت اور دشت شدتی کی صورت حال سے آگاہ کیا جارہا ہے مگربدقسمتی سے ہماری سابقہ حکومتوں نے اس مسئلہ پر خاص توجہ نہیں دی ۔لیکن جون 2018 میں آبی بحران و مسائل کو سنگین جانتے ہوئے اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیا اور ڈیمز کی تعمیرکا حکم دیتے ہوئے ڈیم فنڈ بھی قائم کیا۔ڈیمز کی تعمیر سے متعلق چیف جسٹس کے احکامات کی حمایت اس وقت کے اپوزیشن لیڈر عمران خان نے بھی کی ۔ عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد بھی آبی ذخائر (ڈیمز) کی تعمیر کے عزم کو دھرایا۔ عمران خان صاحب نے آبی وسائل ومسائل کو بہتر کرنے کیلئے 25اکتوبر 2018 کو پہلا قومی آبی کونسل کا اجلاس طلب کیا اور تمام صوبوں سے مل کر قومی آبی مسائل کو حل کرنے پر زور دیا۔عمران خان صاحب کی سنجیدگی تھی کہ اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعدہی 2مئی 2019کو مہمند ڈیم کا سنگ بنیاد رکھ دیا ۔مہمند ڈیم 2.2بلین ڈالر کا منصوبہ ہے جس پرتا حال کام جاری ہے۔عمران خان نے مہمند ڈیم کے سنگ بنیاد رکھنے بعد مزید ڈیمز کی تعمیر کا عزم ظاہر کیا تھا جس کاعملی ثبوت یہ ہے گزشتہ دنوں13مئی2020 کو دیامربھا شاڈیم کے تعمیراتی معاہدوں پر دستخط بھی ہوگئے ہیں۔دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے 442ارب روپے کا ٹھیکہ پاور چائنا اور پاک فوج کے زیر انتظام چلنے والے ادارے فرنٹئیر ورکس آرگنائزیشن(FWO) کو دیا گیا ہے۔کنٹریکٹ میں ڈائی ورژن سسٹم، مین ڈیم، پُل اور پن بجلی گھر کی تعمیر شامل ہے۔اس ڈیم سے بجلی پیدا کرنے کے لیے 12 ٹربائن لگائی جائیں گی اور ہر ایک ٹربائن سے متوقع طور پر 375 میگا واٹ بجلی جبکہ مجموعی طور پر 4500 میگا واٹ بجلی حاصل ہو گی۔دیامر بھاشا ڈیم پر مجموعی لاگت کا تخمینہ 1406.5 ارب روپے ہے اور منصوبہ 2028 میں مکمل ہونے کا امکان ہے۔اس ڈیم کی تعمیر سے ملکی آبی ذخائر میں کافی حد تک بہتری آئے گی چیئرمین واپڈا کے مطابق دیا مر بھاشا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 8.1 ملین ایکڑ فٹ ہوگی جب کہ ڈیم میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحت 4500 میگاواٹ ہوگی جس سے نیشنل گرڈکو سالانہ 18 ارب یونٹ بجلی ملے گی۔دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے 3ملین ایکڑ زرعی اراضی بھی سیراب ہوسکے گی جبکہ ہر سال سیلاب کی آفت سے نمنٹنے کیلئے حکومت کے اربو ں روپوں کے اخراجات کی بچت بھی ہوگی۔ڈیمز کی تعمیر سے سیمنٹ،سٹیل انڈسٹری کو فروغ ملے گا اور ساتھ ساتھ کئی ہزار افراد کو روزگا ر بھی ملے گا ۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی ڈیمز کی تعمیر میں مقامی مادی، مہارت اور افرادی قوت کے استعمال کو ترجیح دینے کا بھی حکم دیاہے۔مہمندڈیم پر تعمیراتی کا م جاری ہے اور دیامربھاشا ڈیم کا عنقریب سنگ بنیاد رکھ دیا جائے گا ۔جو کہ ایک خوش آئند بات ہے لیکن خدشات برقرار ہیں کہ کہیںپہلے کی طرح پھر کوئی رکاوٹ نہ آجائے کیونکہ دیا مر بھاشا ڈیم پر کام کا آغاز پہلے بھی کئی بار ہوچکا ہے ۔اس منصوبے کا سب سے پہلے آغاز 1998 وزیر اعظم محمد نواز شریف دور میں ہوا۔ آٹھ سال بعد 2006 میں اس وقت کے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے ڈیم کی تعمیر کادوبارہ اعلان کیا اور ایک بار پھر اس منصوبے کا افتتاح ہوا جو اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے کیا تھاجبکہ اس ہی ڈیم کا ایک اوربار افتتاح2011میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی بھی کرچکے ہیں لیکن حکمرانوں کی عدم ترجیح اور فنڈز کی قلت کی وجہ سے یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔لیکن اس بار حکمرانوں اور اداروں کو حالات کی سنگینی اور وقت کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے آبی ذخائر کے منصوبوں کوہر حال میںجلد از جلد مکمل کرنا چاہیے کیونکہ بھارت پانی کو پاکستان کے خلاف آبی دہشت گردی کیلئے استعمال کررہا ہے۔ مون سون میں پانی چھوڑ کر پاکستان کو سیلاب میں ڈبونے اور فصلوں کو پانی کی ضرورت کے دنوں میں دریائوں کے رخ موڑ کر پاکستان کو خشک سالی سے دوچار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مون سون میںہمارے شہر کے شہر پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔ اگر ہمارے ملک میں بھی آبی ذخائرموجود ہوتو برسات اور سیلاب کے پانی کو ذخیرہ کرکے استعمال کرسکتے ہیں۔ بھارت کے ناپاک عزائم اور آبی قلت سے محفوظ رہنے کیلئے کالا باغ ڈیم سمیت مزیدنئے آبی ذخائر کی تعمیر ناگزیر ہوچکی ہے۔
]]>
تحریر: صدیق گھمن
جو لندن گیا اور اس کلب میں بال بوائے بن گیا جہاں جلیانوالہ باغ کا مرکزی کردار وحشی جانورجنرل ایڈوائیر وہاں آتا تھا ایک دن موقع پاکر اس نے جنرل ایڈوائیر کو قتل کردیا
اسے گرفتار کرلیا گیا جب اسے کورٹ میں پیش کیا گیا وہاں اس سے اسکا نام پوچھا گیا اس نے اپنا نام رام محمد موہن سنگھ بتایا جج نے اعتراض کیا کہ تین مختلف مزاہب کے نام ایک کیسے ہوسکتے ہیں تو اس نے جواب دیا ویسے ہی جیسے جلیانوالہ باغ میں ان سب کو شہید کیا سرکاری وکیل چالاک تھا اس نے کہا کہ تم قران پر حلف لوگے گیتا پر یا پھر گرنتھ پر اودھم سنگھ نے ایسا جواب دیا جو تاریخ میں امر ہوگیا اور وہاں بیٹھے ہندوستانی دھاڑیں مار مار کے رونے لگے اس نے کہا میں پنجابیوں کی مشترکہ کتاب ہیر وارث شاہ پر حلف اٹھانا پسند کروں گا
آج اودھم سنگھ شہید ہمارے بیچ میں نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اگر یہ قربانی نہ دیتا تو بھی مرجاتا لیکن اس نے پنجاب کو لہولہان کردینے والے قصائی جنرل ایڈوائیر کو جہنم واصل کرکے آزادی کی جدوجہد میں اپنا نام ہمیشہ کے لئے زندہ کردیا.
]]>وطن عزیز میں عام استعمال کی اشیاء کی قیمتوں کے حوالے سے شماریات کا محکمہ وقتاً فوقتاً اعداد و شمار جاری کرتا رہتا ہے جسکا بظاہر مقصد منصوبہ سازوں کوصورتحال سامنے رکھ کر متعلقہ شعبوں میں ضروری تدابیر کیلئے اعانت فراہم کرنا ہے۔ عشروں سے جاری حکومتی وعدوں کے غیر سنجیدہ انداز اور دعووں کے کھوکھلے پن کو دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری سطح پر ان اعداد و شمار کا اصلاحاتی پہلو عموماً نظروں سے اوجھل رہتا ہے جبکہ عام آدمی کو محکمہ شماریات کے اعداد و شمارکے بغیر بھی مہنگائی کے حقیقی گراف کا اس بنا پر اندازہ رہتا ہے کہ اس مہنگائی کا اصل ہدف وہ خود ہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ جولائی 2018ء میں وطن عزیز میں مہنگائی چار سال کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی ۔ اخبارات میں شائع ہونے والا شماریات بیورو کا تجزیہ شرح فیصد کے لحاظ سے ہوتا ہے جو ظاہر کررہاہے کہ جولائی 2018ء میں مہنگائی کی شرح 5.80فیصد رہی جو چار برس کے دوران اس مہینے میں گرانی کے گراف کا بلندترین مقام ہے۔ گزشتہ برس جولائی میں مہنگائی کی شرح 2.90فیصد تھی۔ جون 2018ء میں مہنگائی کی شرح 5.20فیصد بتائی گئی۔ یہ اعداد و شمار اس مزدور اورکم آمدنی والے فرد کی سمجھ سے بالاتر ہیں، جسے چند کلو آٹے اور دالوں کے عوض دکاندار ہزاروں روپے کے حسابات پر مبنی فہرست تھما دیتا ہےاور جس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ بوڑھے ماں باپ، میاں بیوی اور دو بچوں پر مشمل مختصر ترین کنبے کے لئے ایک کمرے کے مکان کے کرائے،بجلی اور گیس کے بلوں کی رقم اور دیگر اخراجات کا کیسے بندوبست کرے۔ کیا کوئی اکنامک منیجر ہمارے معاشرے کے لحاظ سے مختصر ترین سمجھے جانیوالے مذکورہ خاندان کیلئے اس پندرہ ہزار روپے کی کم از کم اجرت میں ماہانہ بجٹ بنا سکتا ہے جس کا عملی اطلاق صرف سرکاری محکموں یا چند بڑی کمپنیوں کی ملازمتوں میں ہوتا ہے۔ بیشتر مقامات پر گھروں اور دکانوں میں کام کرنیوالے ملازمین، اوپر کا کام کرنیوالے افراد، کاغذ اور دوسری چیزیں چننے والوں کی آمدنیاں اس سے کم ہیں۔ ان کی زندگی جس طرح گزرتی ہے اس میں سستے ترین اور انتہائی ناگزیر فوڈ آئٹمز مثلاً پیاز (40روپے کلو)، آلو (40روپے کلو)، ٹماٹر (100روپے کلو)، لوکی (80روپے کلو)، پالک (60روپے کلو)، کھیرا (80روپے کلو)، ہری مرچ (30روپے پائو)، ہرادھنیا (20روپے گڈی) کا اہتمام ہی مشکل ہوتا ہے۔ بھنڈی (100روپے کلو)، ٹنڈا (80روپے کلو)، کیلا (100روپے درجن)، سیب (150روپے کلو)، آم (100تا 150روپے کلو)، چیکو (120روپے) جیسی اشیا کی تو صرف دور سے زیارت ممکن ہے۔ مذکورہ ریٹ جولائی کے مہینے میں کراچی میں مختلف لوگوں کی ذاتی خریداری کی بنا پر درج کئے گئے ہیں۔ اگست میں ان میں کمی آئی ہے۔ مثلاً مرغی کا گوشت جو جولائی کے مہینے میں 340روپے فی کلو تھا، اس وقت 250روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔ اور بھی کئی اشیا کے نرخ گھٹتے محسوس ہو رہے ہیں۔ پیٹرول پر ٹیکسوں میں کمی اور روپے کی قدر میں استحکام سے افراط زر میں کمی کا امکان ہے۔ افراط زر بالواسطہ ٹیکس کی بدترین شکل اور کمزور طبقات کے بدترین استحصال کا وہ آلہ ہے جسے ہمارا فیڈرل بیورو بے دریغ استعمال کرتا چلا آرہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ٹیکسوں کی وصولیابی کا محکمہ ان صاحبان زر سے بلاواسطہ ٹیکسوں کی وصولی یقینی بناتا جن کی املاک اور ذرائع آمدنی کے بارے میں معلومات کا حصول اب زیادہ مشکل نہیں رہا۔ اس کے برعکس غریبوں پر بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے اور انہیں وہ ’’فوڈ باسکٹ‘‘ بھی دستیاب نہیں جس کا دنیا کے بیشتر ممالک اہتمام کرتے ہیں۔ اب عام انتخابات کے بعد نئے حکمراں ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں تو فوری طور پر ایسا میکنزم متحرک کئے جانے کی امید بے محل نہیں جس میں محدود آمدنی کے حامل افراد کو خوردنی اور ضروری اشیا پر مشتمل ’’فوڈ باکس‘‘ ارزاں نرخوں پر فراہم کیا جاسکے۔ نئےحکمراں ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو توقع کی جاسکتی ہے کہ ان کے دیگر وعدوں کے ایفا کی طرف بھی پیش قدمی ہوگی۔
]]>اگر دیکھا جائے تو آج کا نوجوان اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ وہ موسمی گرمی برداشت نہیں کرپاتا۔ گرمی سے گھبرا کر روزہ نہیں رکھ پاتا۔حیران ہوں کہ وہ اللہ کے حکم پر عمل نہیں کرے گا تواپنی نسل کو کیسے سیدھے راستے پر چلائے گا،انہیں روزوں کے فوائد اور روزہ چھوڑنے پر عذاب کے بارے میں نہیں بتائے گا تو انہیں کیا پتا چلے گا کیا صحیح اور کیا غلط ہے۔آج اگر ایک مسلمان گھرانے کا بچہ سحری میں نہیں اٹھتا اور روزے اس وجہ سے نہیں رکھتا کہ مجھ سے بھوک یا گرمی برداشت نہیں ہوتی تو یہ والدین کا فرض ہے کہ اس کو صحیح راستہ بتائیں۔ اسے سمجھائیں اسے عذاب الٰہی سے ڈرائیں ۔حدیث شریف میں ہے کہ ”روزہ اللہ کے عذاب سے (بچانے کی) ڈھال ہے“
رمضان مبارک اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کے نزول کا مہینہ ہے ۔ سورہ البقرہ میں ہے کہ ”اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیئے گئے تھے،تاکہ تم تقوی اختیار کرو“ زمانہ جاہلیت میں لوگ عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے پھر رمضان مبارک کے مہینے میں اللہ نے تمام مسمانوں پر روزے فرض کیئے۔ اللہ کے اس حکم کااحترام پوری امت مسلمہ پورے روزے رکھ کرتی ہے۔ حدیث مبارکہ ہے ”روزہ ایک ڈھال ہے جس کے ذریعہ سے بندہ جہنم کی آگ سے بچتا ہے“
ماہ رمضان پہلی بار گرمیوں میں نہیں آیا۔ گرمی کے موسم میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ رکھا اورگرمی کی شدت اتنی کہ صحابہ اکرام فرماتے ہیں کہ گرمی کی شدت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سر پر بار بار پانی ڈالتے۔ اس دور میں ریگستان کا طویل سفر ،گرمی کی شدت اور اس میں مسلمانوں نے غزوات اور جنگیں لڑیں ۔ لہذا مومن کے لئے موسم کی سختی کوئی معنی نہیں رکھتی ،کسی بھی دور میں مسلمان ماہ رمضان سے خوفزدہ نہیں ہوئے بلکہ اپنی نسلوں کے ساتھ وہ ماہ رمضان کا استقبال کیا کرتے تھے ۔یہی جذبہ آج کے مسلمانوں میں بھی ہونا چاہئے ۔اسی میں ہماری اور ہماری نسلوں کی بقا ہے۔ آج اس مشکل وقت میں ہمیں آنے والی نسلوں کی حفاظت کرنی ہے اور انہیں اس قابل بنانا ہے کہ وہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح مضبوط ہو جائیں جنہیں اگر کوئی الگ کرنے کا سوچے تو خودسوچنے پر مجبور ہو جائے اور ایسی مضبوطی ماہ رمضان کی برکات سے پیدا ہوتی ہیں۔
]]>یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے ۔ عمران خان سمجھ رہے ہیں کہ لاہور میں ایک بڑا جلسہ گیم چینجر ہے۔ گیم چینجر ان کا جلسہ نہیں بلکہ باسٹھ ون ایف ہے جس کے تحت پہلے نواز شریف اور اب خواجہ محمد آصف تاحیات نا اہل ہو گئے۔ عمران خان اپنے دھرنوں اور جلسوں سے کسی کو نہیں گرا سکے۔ اگر کوئی گرا ہے تو اپنی غلطیوں سے گرا ہے۔ عمران خان کی اصل طاقت ان کا نظریہ یا ان کے جلسے نہیں بلکہ نواز شریف کی غلطیاں ہیں۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ 2012ءمیں سپریم کورٹ نے اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے الزام میں نا اہل قرار دیا تو نواز شریف نے خوشیاں منائی تھیں۔ پھر جب اسی سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا تو عمران خان خوشیاں منا رہے ہیں۔ وہ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ اسی سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کو بھی نا اہل قرار دیا ہے۔اور اگر ترین صاحب نا اہل ہو سکتے ہیں تو باسٹھ ون ایف تحریک انصاف کی اہم ترین گردن کو بھی اڑا سکتی ہے؟باسٹھ ون ایف کے بارے میں اس ناچیز کا موقف سب کو پتہ ہے۔ جنرل ضیاءالحق کے دور میں یہ مبہم قانون مخصوص مقاصد کے تحت آئین میں داخل کیا گیا تھا۔ سیاسی جماعتوں نے آئین میں سے اٹھاون ٹوبی کو تو نکال دیا لیکن باسٹھ ون ایف کو نہیں نکالا۔ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعہ اس قانون کو نکالنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہوئی تھی جونواز شریف نے ناکام بنائی۔ اگر نواز شریف باسٹھ ون ایف میں صرف نا اہلی کی مدت واضح کرنے پر بھی راضی ہو جاتے تو آج تاحیات نا اہلی کی تکلیف ان کے چہرے سے کوسوں دور ہوتی لیکن آج وہ اپنی تمام تکلیفوں کی ذمہ داری عدلیہ پر ڈال کر خود کو بے قصور قرار دے رہے ہیں۔ خواجہ محمد آصف نے تاحیات نا اہلی کے بعد بھی عدلیہ پر تنقید سے گریز کیا ہے۔خواجہ محمد آصف مسلم لیگ (ن) کے ان رہنمائوں میں شامل تھے جنہوں نے نواز شریف کی نااہلی کے بعد فوج اور عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کی پالیسی سے اختلاف کیا۔ وہ نواز شریف کے ساتھ وفادار رہے لیکن انہوں نے ببانگ دہل یہ بھی کہا کہ فوج اور عدلیہ منتخب حکومت کے خلاف کوئی سازش نہیں کر رہے۔ کچھ عرصہ قبل نواز شریف نے دوستانہ انداز میں خواجہ صاحب کے موقف پر ان کے سامنے سوال اٹھایا تو خواجہ صاحب نے جواب میں کہا کہ آپ نے مجھے وزیر خارجہ بنایا ہے اگر ملک کا وزیر خارجہ اپنے ہی ریاستی اداروں پر حملہ آور ہو جائے توخارجہ محاذ پر پاکستان کا مقدمہ کیسے لڑے گا؟مارچ 2018ء میں سیالکوٹ میں ایک تقریب کے دوران خواجہ محمد آصف کے چہرے پر سیاہی پھینکی گئی تو یہ واضح ہو گیا کہ فوج اور عدلیہ پر تنقید نہ کرنے کے باوجود وہ کچھ لوگوں کا ٹارگٹ ہیں۔13اپریل کو انہوں نے سیالکوٹ میں مسلم لیگ (ن) کے سوشل میڈیا ورکرز کنونشن کا اہتمام کیا جس میں مریم نواز نے خواجہ محمد آصف کی تعریفوں کے انبار لگا دئیے۔ اس کنونشن کے بعد عمران خان نے کہنا شروع کر دیا کہ مسلم لیگ (ن) کی ایک بڑی وکٹ گرنے والی ہے۔ اکثر لوگ یہ سمجھتے رہے کہ چوہدری نثار علی خان تحریک انصاف میں جانے والے ہیں۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کو پتہ تھا کہ چوہدری صاحب فصلی بٹیروں کی لائن میں لگ کر اس طرف نہیں جائیں گےجہاں بٹیروں کو تھوڑا سا دانہ دنکا ڈالنے کے بعد بند کمر وں میں ان کی بے وفائیوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اور پھر اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ آ گیا۔ خواجہ محمد آصف کی وکٹ بھی گر گئی۔ خواجہ صاحب کو ایک ایسے اقامے کی آمدنی پر نا اہل قرار دیا گیا جو وہ مسلسل 27سال سے ظاہر کر رہے ہیں۔ خواجہ صاحب کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنی کوئی آمدنی نہیں چھپائی۔ الیکشن کمیشن کے کاغذات نامزدگی میں جو بھی پوچھا گیا وہ بتایا گیا۔ انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا حق حاصل ہے لیکن ان کے بہت سے خیر خواہوں کا خیال ہے کہ وفاقی وزیر بننے کے بعد وہ یو اے ای کے اقامے سے نجات حاصل کر لیتے تو بہتر ہوتا۔ ان کی نا اہلی کے فیصلے سے مسلم لیگ ن کے اندر کچھ لوگوں کی یہ رائے غلط ثابت ہو گئی کہ خواجہ محمد آصف کسی خاموش مفاہمت کی وجہ سے فوج اور عدلیہ پر تنقید نہیںکر رہے تھے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن یہ بڑا تفصیلی فیصلہ ہے۔ اس فیصلے میں جن قانونی نکات کی بنیاد پر نا اہلی کو جائز سمجھا گیا وہ غور طلب ہیں اور اس فیصلے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ عدالتیں باسٹھ ون ایف کا استعمال سیاسی انتقام کے لئے نہیں کر رہیں۔ جب تک باسٹھ ون ایف کو آئین سے نہیں نکالا جاتا اور جب تک سیاستدان اپنی اپنی گیم پارلیمنٹ کے ذریعہ چینج کرنے کے بجائے عدالتوں کے ذریعہ چینج کرنے میں مصروف رہیں گے تو عدالتوں کو یہ فیصلے دینے پڑیں گے۔افسوس صد افسوس کہ کچھ سیاستدان عدالتوں میں کھڑے ہو کر کہتے تھے کہ یہاں سے ان کے مخالف سیاستدان کا تابوت نکلے گا۔ وہ جو دوسروں کا تابوت نکالنے کے دعوے کرتے تھے آج کل اپنا تابوت نکلنے کاانتظار کر رہے ہیں اور اس انتظار نے ان کی زبانوں کو اچانک خاموش کر دیا ہے۔ عجیب سیاست ہے۔ سیاسی معاملات کو سیاستدان خود ہی عدالت میں لے جاتے ہیں ۔ باسٹھ ون ایف کے تحت سیاسی مخالف کو گرا کر فتح کے شادیانے بجاتے ہیں اور جب یہی باسٹھ ون ایف اپنے سر پر لٹکتی نظر آتی ہے تو خوف سے زبان بند ہو جاتی ہے ۔ دیکھتے جائیے ۔یہ باسٹھ ون ایف ایسی ایسی گردنوں پر گرے گی کہ نواز شریف کا بیانیہ آپکو خون میں لت پت شاہراہ دستور کے فٹ پاتھ پر گرا ہوا نظر آئے گا۔آج جب اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ آپ نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا تو طعنہ دینے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ٹھیک ہے 1999ء کے بعد کچھ ججوں نے واقعی پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا لیکن جن صاحب کے جاری کردہ پی سی او کے تحت حلف اٹھایا ان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر کے سعودی عرب کون چلا گیا تھا؟پاکستان کی عدلیہ کے کردار میں 2007کی وکلاءتحریک کے بعد ایک تبدیلی آئی تھی اور یہ وکلاءتحریک صرف ایک فرد کے لئے نہیں چلی تھی۔ سپریم کورٹ کے 17میں سے 13ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا۔ انکار کرنے والوں میں افتخار محمد چوہدری کے علاوہ رانا بھگوان داس، جاوید اقبال، سردار محمد رضا، تصدق حسین جیلانی اور ناصر الملک بھی شامل تھے۔ لاہور ہائیکورٹ کے ثابت قدم ججوں میں ثاقب نثار ، آصف سعید کھوسہ ، شیخ عظمت سعید، عمر عطاءبندیال، اور اقبال حمید الرحمان شامل تھے۔ پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس دوست محمد خان، جسٹس اعجاز افضل اور طارق پرویز نے بھی پی سی او کا حلف نہیں اٹھایا۔ سندھ ہائیکورٹ کے صبیح الدین، خلجی عارف حسین، گلزار احمد، مقبول باقر، فیصل عرب، سجاد علی شاہ سمیت 16ججوں نے پی سی او کا حلف اٹھانے سے انکار کیا۔ بلوچستان کے تمام ججوں نے پی سی او کا حلف اٹھایا تھا اسی لئے قاضی فائز عیسیٰ کو براہ راست چیف جسٹس بنانا پڑا تھا۔ یہ وہ جج ہیں جنہوں نے پرویز مشرف کے پی سی او کا حلف اٹھانے سے انکار کیا آج ان ججوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ پرویز مشرف کا احتساب نہیں کرتے جبکہ مشرف کو پاکستان واپس لانا مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مشرف کے خلاف مقدمات ہماری عدلیہ کے لئے بڑا چیلنج ہیں۔ عدلیہ کو ہمارے سیاستدان اپنی گیم میں گھسیٹتے ہیں اور عدالتی فیصلوں کو اپنی سیاسی فتح قرار دیتے ہیں ۔ یہ عدالتی فیصلے جاری رہے تو صرف نواز شریف کا بیانیہ غلط ثابت نہیں ہوگا بلکہ عمران خان اور آصف زرداری کو بھی اپنی گیم ختم ہوتی نظر آئے گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
پاکستان کی موجودہ اعلیٰ عدلیہ کے حالیہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ فیصلے قومی مفاد کے عین مطابق ہیں ۔ سپریم کورٹ کے کردار کو ہدف تنقید صرف وہی لوگ بنا رہے ہیں , جن کے ذاتی سیاسی مفادات کو نقصان پہنچا ہے ۔ اعلیٰ عدلیہ کے حالیہ تاریخ ساز فیصلے پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے قیام کےلیے سود مند ثابت ہوں گے ۔ آئین کے آرٹیکل 62ایف ون کی جو تشریح سپریم کورٹ نے کی ہے , اس سے مکمل اتفاق ہے ۔یاد رہے کہ سب سےپہلےڈاکٹر طاہرالقادری نےقوم کوآئین کا آرٹیکل 62اور63 یاد کروایا تھا ۔
آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کے مطابق ناصرف موجودہ سیاسی مافیا کا کڑا احتساب کرنا ہوگا , بلکہ انتخابی نظام میں انہی آرٹیکلز کے مطابق ایسی اصلاحات کرنی ہوں گی , کہ بدعنوان سیاسی مافیا کو انتخابی عمل سے باہر کیا جا سکے ۔ جو لوگ آج یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ صادق اور امین کی کسوٹی پر پورا اترنا کسی کےلیے بھی ممکن نہیں ہوگا , وہ دراصل اپنے سیاسی اعمال نامے سے خوفزدہ ہیں , اور عوام کے ذہنوں میں بلاجواز شکوک وشبہات پیدا کر رہے ہیں ۔ عوام کی نمائندگی کےلیے جب تک ایسی کڑی شرائط نہیں ہوں گی , اسلامی تصور جمہوریت کے تقاضے پورے نہیں ہو سکیں گے ۔
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا , بانی پاکستان نوزائیدہ مملکت کو ایک اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنانے کے خواہشمند تھے ۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے شہید ملت لیاقت علی خان نے قرارداد مقاصد دستوریہ سے منظور کروائی تھی , تاکہ قیام پاکستان کے مقاصد کے عین مطابق آئین سازی کی بنیاد رکھی جا سکے ۔ 1973 کا متفقہ آئین اسی قرارداد مقاصد کی روشنی میں بنایا گیا ۔ 1973 کے آئین کے مطابق ہم نے پاکستان کو بتدریج ایک اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنانا تھا ۔ 1973 کے آئین کی حقیقی روح کے مطابق پاکستان میں اسلام سے متصادم کوئی قانون سازی نہیں کی جا سکتی ۔ مگر ہم نے آج تک آئین کو حقیقی روح کے مطابق نافذ نہیں کیا , جمہوری نظام کو مستحکم نہیں ہونے دیا , اور نہ ہی عوام کی فلاح وبہبود کو حکمرانوں نے مطمع نظر بنایا ۔ اس کے برعکس ہر آنے والی حکومت نے آئین کو موم کی ناک سمجھ کر ترامیم کرکے اپنے سیاسی مفادات کے مطابق ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی ۔ ہمارے سیاست دانوں نے قومی خزانہ بے دردی سے لوٹا , قومی مفادات پر ذاتی سیاسی مفادات کو ترجیح دی ۔ عوام کا احساس محرومی دور کرنے کی کوئی مخلصانہ کوشش نہیں کی ۔ اگر آج سپریم کورٹ آف پاکستان نے بدعنوان سیاسی مافیا کے مفادات پر ضرب لگائی ہے , تو مفاد پرست ٹولہ مگرمچھ کے آنسو بہا رہا ہے ۔ کچھ لوگ یہ کہتے نظر آئے کہ سیاست دانوں کا احتساب عوام کو اپنے ووٹ سے کرنا چاہیے ۔ بجافرمایا مگر ہمارا انتخابی نظام بھی بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں کا مجموعہ ہے , جسے ٹھیک نہیں کیا جارہا ۔ ایسے میں لازماً عوام کی تمام تر توقعات سپریم کورٹ سے وابستہ ہونا کوئی غیر فطری بات نہیں ۔ توقع ہے کہ بدعنوان سیاسی مافیا کے خلاف یہ آپریشن اپنے اہداف ضرور حاصل کرے گا ۔
ایسے وقت میں جبکہ خاندان شریفیہ کے گرد اعلیٰ عدلیہ نے احتساب کے لیے گھیرا تنگ کردیا ہے , جسٹس اعجاز الاحسن کے گھر پر فائرنگ سے بدعنوان سیاسی مافیا کی بوکھلاہٹ ظاہر ہوگئی ہے ۔ یہ حملہ بدعنوان سیاسی مافیا کا سپریم کورٹ پر حملہ ہے جو قابلِ مذمت ہے ۔ خیرچیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے سانحہ ماڈل ٹاون کا بھی ازخود نوٹس لےلیا ہے ۔ بڑے بھائی کے بعد اب چھوٹے بھائی کی باری آگئی ہے۔ جیسے جیسے خاندان شریفیہ کا انجام قریب آتا نظر آرہا ہے , لیگی صفوں میں انتشار بھی بڑھتا جا رہا ہے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے ازخود نوٹس کی روایت پر اعتراضات اٹھانے والے دانشمند بتائیں کہ انہوں نے ملکی مسائل حل کرنے کےلیے کیا کچھ کیا؟ ناقدین کیا یہ چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ بھی معاملات کھٹائی میں پڑے رہنے دے؟ اگر چیف جسٹس کے ازخود نوٹسز سے عوام کی داد رسی ہورہی ہے , تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں ہے ۔ اور ہمیں موجودہ اعلیٰ عدلیہ کا شکر گزار ہونا چاہئے ,جس نے آئین و قانون کی اصلی روح کے مطابق فیصلے دینے کی روایت کا آغاز کردیاہے ۔
]]>کچھ عرصہ سے وکلاءکے درمیان جھگڑے اور ہاتھ پائی خبروں کا حصہ بنی ہوئی ہے ۔ابھی چند روز قبل ایوان عدل کے کمیٹی روم میں دو وکلاءکے درمیان ایک کیس پر بحث ہوئی جو تکرار اور پھر تلخ کلامی میں تبدیل ہوتے ہوتے اس حد تک بڑھ گئی کہ انہوں نے ایک دوسرے پر تھپڑوں ، لاتوں اور گھونسوں کی بارش کر دی۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ وکلاءلڑتے لڑتے احاطہ عدالت میں داخل ہوگئے اور ایک دوسرے پر کرسیاں بھی برسائی گئیں۔ یہ لڑائی تقریباً 15منٹ تک جاری رہی اور دیکھتے ہی دیکھتے احاطہ عدالت میدان جنگ بن گیا۔
وکلاءکے درمیان لڑائی کا یہ واقعہ ہرگز پہلا یا آخری واقعہ نہیں ہے۔ یہ تقریباً معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ کسی بھی پروفیشن میں اس قسم کے واقعات ہو سکتے ہیں مگر وکلاءکے لیے یہ واقعات اس لیے باعث شرمندگی اور ندامت ہیں کیونکہ ایک وکیل کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ صبر اور برداشت سے کام ہے۔ اپنے موقف کو منوانے کے لیے عدم برداشت سے کام لینا ہرگز عقلمندی ہیں۔ مد مقابل کی بات کو سمجھنا اور برداشت کرنا بہت ضروری ہے جس وکیل میں قوت برداشت نہیں ہے وہ کبھی بھی اچھا وکیل نہیں بن سکتا مگر یہاں ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے وکلاءبرادری برداشت اور صبر سے عاری ہو چکی ہے ۔ ذرا سے اختلاف پر نوبت ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے تک جا پہنچتی ہے۔
خواتین وکلاءکی نسبت مرد وکلاءزیادہ جھگڑالو اور جارحانہ رویہ اپناتے ہیں۔ ویسے بھی وکیل حضرات کالے کوٹ کو پہنتے ہی خود کو Super Manسمجھنے لگتے ہیں اور یہ محسوس کرتے ہیں کہ اب وہ جو جی چاہے کر یں وہ آزاد ہیں نہ تو کوئی انہیں روک سکتا ہے نہ ہی ٹوک سکتاہے۔بلاشبہ ”کالے کوٹ“ کی عزت یا اہمیت سے انکار ہرگز نہیں مگر اس کو پہننے کے بعد زیادہ محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ اسکی قدرو منزلت پر کوئی داغ نہ لگے۔لیکن انہیں جیسے اسکی کوئی پرواہ نہیں۔ وکلاءبرادری آئے روز مختلف جھگڑوں، ہڑتالوں ا ور ججز کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی بنا ءپر موضوع بحث بنی نظر آتی ہے۔ اکثر وکلاءمرضی کا فیصلہ نہ دینے پر ججز کو ڈراتے دھمکاتے نظر آتے ہیں اور بات ہاتھا پائی تک بھی پہنچ چکی ہے۔ پنجاب خصوصاً لاہور میں وکلاءکا یہ رویہ معمول بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آئے روز کورٹس میں ہڑتالیں معمول بنتی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف سائلین بلکہ ایسے وکلاءکے لیے بھی پریشانی کا باعث بنتی ہیں جو درحقیقت اس مقدس پیشے کو نیک نیتی کے ساتھ سر انجام دینا چاہتے ہیں۔
ایسے وکلاءجو اس پیشے کو بدنام کرنا چاہتے ہیں اورجو اس قسم کی منفی سرگرمیوں کا حصہ بنتے ہیں انہیں سبق سکھانا ضروری ہے تاکہ وہ قانون کا احترام کریں اور اس کے تقدس کی دھجیاں اڑانے سے گریز کریں۔یہ سبق انہیں سینئرز،سول سوسائٹی اورقانون اچھے طریقے سے سکھا سکتا ہے۔مجھے ڈر ہے اگر وکلا گردی پر ایمان رکھنے والے وکلا نے روش نہ بدلی تو سائل کچہریوں میں جانا چھوڑ دیں گے۔
]]>