میں نے اپنے پچھلے کالم میں جنگلات کی افادیت پر تفصیل سے لکھا اور آپ لوگوں نے کافی سراہا تو آج میں قدرت کی ان گنت نعمتوں میں سے ایک نعمت جنگلی حیات پر کچھ لکھنا چاہتا ہوں جیسا کہ آپ سب اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں پاکستان میں جنگلی حیات کے وجود اور بقا کو شدید خطرات لاحق ہیں اور اس کے معدوم ہونے کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے جیسا کہ بے تحاشہ بڑھتی آبادی جنگلات کے لیے خطرہ ہے اسی طرح جنگلی حیات کی بھی دشمن نمبر ون ہے۔ درخت کا پودا صدیوں بعد ایک تناور درخت بنتا ہے اور ڈھیر سارے درخت مل کر جنگل کا روپ دھارتے ہیں جو جنگلی حیات کے پنپنے کے لیے ایسا سازگار ماحول پیدا کرتے ہیں جس میں جنگلی جانور کھیلتے کودتے آزادی کے نغمے الانپتے زندگی کے شب و روز گزارتے ہیں۔ کہتے ہیں 4 ارب سال پرانی یہ زمین کیسے کیسے چرند پرند اپنی آغوش میں پالتی رہی مگر پچھلے 40 سال سے بڑھتی آبادی نے اس قرہ ارض پر ظلم اور بربریت کے ایسے وار کیے کہ 58 فیصد جنگلی حیات ختم کر کے رکھ دی۔ زولوجیکل سوسائٹی آف لندن اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جنگلی حیات کو ختم کرنے کا سلسلہ یونہی چلتا رہا تو 2020 میں جانوروں کی تعداد میں دو تہائی کمی واقع ہو جائیگی۔ یہ حقیقت ہے کہ جنگلی حیات کسی بھی ملک کا سرمایا ہوتی ہیں ان کے تحفظ کے لیے کام کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ سخت سردی کے موسم میں سائبیریا سے ہجرت کر کے گرم علاقوں کا رخ کرتے ان پرندوں کے لیے پاکستان میں گھات لگائے شکاری قدرت کی اس نعمت کی نسل کْشی میں شریک ہیں۔
سندھ اور بلوچستان اگرچہ نایاب پرندوں اور جانوروں کے شکار پر سخت پابندی ہے مگر سندھ کے وڈیروں کے لاڈلے اپنے بڑی گاڑیوں کے بونٹ پر شکار کیے ہوے پرندے سجا کر اور بلوچستان کے بلوچ سرداروں کے سردارزادے گاڑیوں میں شکار کیے ہوے جانور پھیلا کر کاندھے پر بندوق رکھ کر متکبرانہ انداز سے ایسے فوٹو بنواتے ہیں جیسے کشمیر فتح کر لیا ہو۔
ظلم کی حد ہے جن چرند پرند سے ہمارے ماحول میں خوش نما رونق ہے ہم اسی کے درپے ہوے پھرتے ہیں خیبر پختون خواہ کے لوگوں کو دیکھیں تو کاندھے پر بندوق اور ہاتھ میں گْلیل پکڑے بے چارے پرندوں کے شکار کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں جیسے ہی کوئی جانور یا پرندہ نظر آیا حرام حلال کی تمیز کیے بغیر نشانے پر رکھ لیا پھر اسے تڑپتا دیکھ کر گویا کہ سکون قلب حاصل کرتے ہیں اور نسوار کی ڈبیہ سے استفادہ کرتے ہوئے اگلے شکار کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں جنوبی اضلاح لکی مروت ڈیرہ اسماعیل خان بنوں کوہاٹ کرک میں چل کر دیکھ لیں شاید ہی کوئی پرندہ اڑتا یا جانور دوڑتا نظر آئے۔
میں شکار کا مخالف نہیں بچپن سے آج تک خرگوش کے شکار کا دلدادہ رہا ہوں ہم خرگوش کو مارنے اور اس کے گوشت کو کھانے کے لیے شکار نہیں کھیلتے تھے بلکہ شریکوں کے کْتے سے اپنے کْتے کی جیت کے لیے شکار کھیلتے تھے۔ کبھی شکار کھیلتے خرگوش کی موت ہو جاتی تو ہمیں سخت تکلیف پہنچتی مگر جب خرگوش کتوں کے وار سے بچ نکلتا اور کتوں کے بیچ ریس کے مقابلے کا رزلٹ کسی کی ہار کسی کی جیت کی صورت میں نکلتا تو ہماری خوشی کی انتہا نہ رہتی اس وقت ڈھول کی تھاپ پر لْڈی اور بھنگڑے ڈالتے نوجوان کتنے بھلے لگتے تھے۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا جس کی بہتات ہو اس کا شکار کرنے میں کوئی حرج نہیں مگر جن جانوروں کی نسلیں ختم ہونے کو ہیں کسی طور ان کے شکار کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ کوئٹہ کے آس پاس پہاڑوں میں موجود چِلتن جنگلی بکرہ جو صرف اسی علاقے میں پایا جاتا ہے دنیا میں کہیں اور اس کا وجود نہیں انسانی نما درندے اس کی زندگی پر قہر بن کر نازل ہو رہے ہیں۔
ایک اور نایاب ہوتا جانور مارخور جو کہ ہمارا قومی جانور بھی ہے یہ پاکستان کی شمالی علاقوں گلگت بلتستان، چترال وادی کیلاش ہنزہ وادی اور کوہستان کے علاقوں میں مشکل ترین پہاڑی چوٹیوں اور پتھریلی چٹانوں میں اپنی زندگی کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ہر روز سوشل میڈیا پر اس انسان دوست جانور کے خونوں خون جسم پر پاؤں رکھ کر سینگ پکڑے کوئی نہ کوئی انسان نما درندہ فخریہ تصویر بنوا رہا ہوتا ہے۔ محکمہ جنگلی حیات قیمتی جانوروں کے تحفظ اور اس کے غیر قانونی شکار کی روک تھام میں مکمل ناکام ہے پچھلے دنوں ایک امریکی نے تقریباً 2 کروڑ سے ہمارے قومی جانور کا شکار کروایا لوگ سمجھتے کیوں نہیں کہ یہ نایاب ہوتا جانور انسانوں کے لیے کتنا ضروری ہے مقامی لوگوں کے مطابق مارخور سانپ کو مار کر اس کو چبا جاتا ہے اس کی جگالی کے نتیجے میں اس کے منہ سے جھاگ نکلتی جو نیچے زمین پر گر کر سخت ہو جاتی ہے جسے سانپ کے کاٹے کے علاج میں استعمال کیا جاتا ہے ایک عالمی سروے کے مطابق بالغ مارخور کی تعداد پاکستان میں 2500 سے بھی کم رہ گئی ہے اب حکومت پاکستان کا فرض بنتا ہے کہ سخت ترین قانون سازی کے ذریعے اس قومی جانور کی نسل کْشی روکی جائے۔ حکومتی ادارے نایاب پرندوں اور جانوروں کو اپنے تئیں بچانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں مگر جس سختی سے اس کا شکار روکنا چاہیے وہ نہیں ہو پا رہا جس کی وجہ سے ان نایاب جانوروں کی تعداد بتدریج کم سے کم ہوتی جا رہی ہے ان قیمتی نایاب جانوروں کا شکار کرنا کسی طور مناسب نہیں بلکہ ظلم ہے آج جتنا اس نایاب جنگلی حیات کو بچانے کی ضرورت ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی جنگلی جانور نہ صرف ماحولیات کو متوازن رکھتے ہیں بلکہ ان سے ماحول بھی خوبصورت لگتا ہے کالے تیتر بھورے تیتر کونج تلور مرغابیاں کالا اور چیتل ہرن مارخور اور جنگلی چلتن بکرے کی نسل کشی روکنے کے لیے ہم سب کو سوچنا ہوگا۔ تین ہفتے کے بعد 3 مارچ کو جنگلی حیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے ترقی یافتہ قومیں بجٹ کا کثیر حصہ جنگلی حیات کے تحفظ پر خرچ کرتی ہیں ان کی اخلاقیات دیکھیں سڑک پر اچانک بطخ اور بچے آ جاتے ہیں تو فوراً ٹریفک رک جاتی ہے جبتک سڑک پار نہیں کر لیتے کھڑے دیکھتے رہتے ہیں تو اس سلسلے میں تمام پاکستانیوں سے گزارش ہے آؤ اس دن کی وساطت سے عہد کریں کہ ان معصوم، مفید اور نایاب جانوروں اور پرندوں کو انسان نما درندوں سے کیسے بچانا ہے؟
[wp_news_ticker_benaceur_short_code]