سابق وزیر داخلہ اور کانگریس کے سینئر رہنما پی کے چدم برم نے 3 سال بعدایک بھارتی اخبار کو انٹر ویو دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ پارلیمنٹ پر حملہ کیس کے حوالے سے کشمیری رہنما افضل گورو کی سزائے موت کے معاملے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔
پارلیمنٹ حملے میں افضل گورو کے ملوث ہونے کے حوالے سے سنگین قسم کے خدشات موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کاحصہ ہوتے ہوئے عدالتی فیصلے کو غلط نہیں کہا جا سکتا لیکن ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ افضل گور وکے معاملے میں انصاف نہیں کیا گیا۔
2012میں سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کی حکومت میں وزیر داخلہ رہنے والے کانگرس کے سینئر لیڈر نے کہاشایدافضل گوروکاپارلیمنٹ حملے میں کوئی کردارنہیں تھا۔ ایماندارانہ رائے یہی ہے کہ افضل گوروکے خلاف بنائے گئے مقدے کا درست فیصلہ نہیں دیاگیا۔ گورو کو پھانسی کے بجائے بغیرپے رول کے عمرقیدکی سزابھی دی جاسکتی تھی۔انہوں نے مقبوضہ کشمیرمیں رائج کالے قانون آرمڈ فورسزاسپیشل پاوز ایکٹ پر بات کرتے ہوئے کہاکہ اگر بھارتی حکومت اس قانون کے ہٹانا نہیں چاہتی تو اس میں ترمیم کی جانی چاہیے۔
انہوں نے افسپا جس کے تحت کشمیرمیں تعینات بھارتی فوجیوں کو نہتے کشمیریوں کے قتل عام اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کی کھلی چھوٹ حاصل ہے میں ترمیم کی حمایت کرتے ہوئے واضح کیاکہ بھارتی فورسزکشمیرکی صورتحال کاجواب نہیں۔ انہوں نے وادی کشمیر میں بڑی تعدادمیں بھارتی فورسزکی تعیناتی پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ مسلح فورس کشمیرکی صورتحال کاحل نہیں۔56انچ چھاتی والی سوچ کشمیرمیں کارگرثابت نہیں ہوسکے گی۔
افضل گورو کو بھارتی عدالت نے 2001 پارلیمنٹ حملہ کیس میں ملوث ہونے کے جرم میں سزائے موت سنائی تھی اور پھر انھیں 2013 میں سزائے موت دے دی گئی، افضل گورو کی موت کے وقت پی کے چدم برم وزیر خزانہ جب کہ سشی کمار شنڈے وزیر داخلہ تھے۔ 2012میں پی چدمبرم سے اچانک وزارت داخلہ کاقلمدان واپس لیکرانھیں وزیرخزانہ بنادیا گیا تھا اور 2013 میں افضل گوروکوپھانسی دیدی گئی تھی۔
مقبوضہ کشمیر کے طبی تعلیم کے وزیر تاج محی الدین نے کشمیری نوجوان محمد افضل گورو کی پھانسی کو سیاسی ناکامی قرار دیا ۔ افضل گورو کو تختہ دار پر لٹکانے کے لئے بھارتی حکومت کو مقبوضہ کشمیر حکومت کو آگاہ کرنا چاہئے تھا۔ ہو سکتا ہے کہ خفیہ اداروںنے اس سلسلے میں وزیر داخلہ کو غلط اطلاعات فراہم کی ہوں اور انہیں اس قسم کے ردعمل کا خدشہ نہ ہو۔ بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج اشوک کمار گنگولی نے افضل گورو کی پھانسی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے عدالتی فیصلے کو مشکوک قرار دیدیا۔سابق جج اشوک کمار گنگولی کا کہنا تھا کہ افضل گورو کی پھانسی انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی۔ افضل گورو کو اپیل کے لئے مناسب وقت نہیں دیا گیا۔ تین فروری کو ان کی معافی کی درخواست مسترد ہوئی اور 9 فروری کو پھانسی دی گئی۔ افضل گورو کو ان کے خاندان والوں سے بھی ملنے نہیں دیا گیا جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔
بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے فرضی کیس میں کشمیری نوجوان محمد افضل گورو کو9فروری 2013 نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں انتہائی خفیہ طور پر پھانسی دیدی گئی اور انکی میت کو ورثا کے حوالے کرنے کے بجائے تہاڑ جیل کے اندر ہی انکے سیل میں دفنا دیا گیا۔
بھارتی پارلیمنٹ پر 13 دسمبر 2001ءکے حملے کو بھارتی تاریخ کے متنازعہ ترین واقعات میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس روز جن پانچ افراد نے بھارتی پارلیمنٹ کی عمارت پر دھاوا بولا، ان تمام کو بھارتی سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ہلاک کردیا تھا جبکہ اس حملے میں ایک مالی اور ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوا تھا۔ بھارت نے اس حملے کا الزام عسکریت پسند تنظیم جیش محمد پر عائد کیا اور کہا کہ اس تنظیم کو پاکستان کی سرپرستی حاصل ہے جبکہ بعدازاں افضل گورو کو اس حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دیکر گرفتار کرلیا گیا جن کا شمار جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے سرگرم کارکنوں میں ہوتا تھا۔ اس پس منظر میں ہی پوری دنیا پریہ حقیقت منکشف ہوچکی تھی کہ افضل گورو کو ناجائز طور پر اس حملہ میں ملوث کیا گیا ہے جبکہ کشمیری عوام افضل گورو کی پھانسی کو کشمیر کی آزادی کی تحریک کو دبانے کے بدترین ریاستی ہتھکنڈے سے تعبیر کررہے ہیں اور اس زیادتی پر آزاد کشمیر ہی نہیں، مقبوضہ کشمیر کے عوام ابھی تک بھی سخت غم و غصہ کی کیفیت میں ہیں۔
افضل گورو کے معاملے میں کئی رخ ایسے ہیں جن پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ افضل گورو کو اس کیس میں اپنے دفاع کیلئے کماحقہ وکیل آخر کیوں فراہم نہ کیا گیا؟ کیس کے آغاز میں ہی اگر قانونی مشیر میسر آ جاتا تو صورتحال قدرے مختلف ہوسکتی تھی۔ دوسری بات یہ کہ افضل گورو کے خلاف مقدمہ واقعاتی شہادتوں کی بنیاد پر چلایا جاتا رہا اور اسی پر فیصلہ سنادیا گیا۔ حالانکہ افضل کا براہِ راست حملوں میں ملوث ہونا یا معاونت فراہم کرنا کہیں بھی ثابت نہ ہو پایا تھا۔ فیصلے میں باقاعدہ لکھا گیا کہ یہ سزا مکمل قانونی شہادتوں کی غیر موجودگی میں صادر کی گئی ہے بلکہ معاشرے کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے سنائی گئی۔ کیا ایک بےگناہ کا لہو اتنا غیر اہم ہے کہ عوامی جذبات کی تسکین کیلئے اسے بہا دیا جائے؟ کیا افضل گورو بھارتیوں کے لئے مسیحا بن کے آیا تھا کہ اسے قوم کے گناہ دھونے کے لئے یوں تختہ دار پر چڑھا دیا جائے؟
افضل گورو کو آخر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع کیوں فراہم نہیں کیا گیا؟ اس سوال کے بہرکیف بھارت کی عدلیہ، سرکار اور عوام سب جوابدہ ہیں۔ گرفتاری کے بعد چھ ماہ تک اسے کوئی وکیل فراہم نہ کیا جانا اور پھر تشدد کے ذریعے اعترافی بیان وکیل کی غیر موجودگی میں قلم بند کرنا بھی بھارت کی اعلی عدلیہ کے طریقہ عدل پہ سوالیہ نشان کھڑے کرنے کو کافی ہیں۔
افضل گورو کیس میں جس عجلت کا مظاہرہ بھارت نے کیا اس کی مثال ڈھونڈنا ممکن نہیں۔ پارلیمنٹ حملہ کیس میں جون 2002 میں فردِ جرم عائد کیے جانے کے صرف 197 دنوں بعد اسے فیصلے کی صورت موت کا پروانہ تھما دیا گیا۔ اس کیس کی تحقیقات پہ مامور دہلی کے سپیشل پولیس سیل نے 17 دنوں میں تحقیقات مکمل کر کے بھی حیران کن پھرتی کا مظاہرہ کیا۔
چدمبرم اور جج اشوک کمار کے اعتراف کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ افضل گورو کو پھانسی دیتے ہوئے بھارت نے قانونی، اخلاقی اور انسانی حقوق کے تقاضوں کا کھلے عام گلا گھونٹ دیا۔ کیا یہی ہے جمہوری ریاست ہونے کی دعویدار بھارت کے نظامِ انصاف کا اصل چہرہ؟