رمضان برکتوں والامہینہ، گناہوں کی معافی کامہینہ ،رمضان قر آن کامہینہ، رمضان قر آن کادوست ہے ان کی دوستی بہت گہری ہے۔
رمضان ہی کے مہینے میں قر آن مجیدنازل ہوا۔
نبیۖنے فرمایا:
”جس نے ایمان اورثواب کی نیت کے ساتھ رمضان کی راتوںمیں قیام کیااس کے پچھلے سارے گناہ معاف کردئیے جائیں گے۔”(بخاری:2014)(نسائی :2204)
رمضان کی راتوں کاقیام بہت بڑی سعادت ہیاپنے رب کے آگے کھڑے ہونا،اپنے رب کے لیے کھڑاہونا،اس کے کلام کوسننا،اس کے لیے دل کی، ذہن کی ،جسم کی حاضری۔رب کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ یہ بہت بڑی سعادت ہے جوبندے کونصیب ہوتی ہے۔نبیۖرمضان اورغیررمضان میں رات کواللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے۔ رات کوجب آپ نوافل اداکرتے توان میں قر آن مجیدکی تلاوت کیاکرتے تھے۔اللہ پاک کے اس حکم کے مطابق جوسورہ المزمل میں ہے۔
”اے چادراوڑھنے والے!رات کوقیام کرومگرکم۔ آدھی رات یا اْس سے تھوڑاکم کرلو۔یااْس پرکچھ اضافہ کرلواورقر آن کوخوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔” (المزمل:1? 4)
سورہ المزمل کی آیات ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ آپۖکے لیییہ حکم فرض تھایعنی یہ عبادت آپ کیلیے نفل نہیں تھی لیکن امت کے لیے یہ عبادت نفل قراردی گئی۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ کیحکم کے مطابق نبیۖ نے راتوں کوطویل قیام کیا۔ آپۖجب قیام کرتے تودیرتک آنسوبہاتے تھے۔
رات کی نمازشکرگزاری ہے، اس کی جس نے زندگی عطاکی،جس نے محمدۖکاامتی بنایا،جس نے قرآن کی دولت عطاکی،اس نے اس زندگی میں یہ شعوردیا، کہ ہم اس کی عبادت کرسکیں!
نبیۖسیاس عبادت کی خوبصورتی کے بارے میں جب سیدناجبرائیل علیہ السلام نے سوال کیا:
احسان کیاہے ؟
یہ خصوصی سوال تھاعبادت کے حسن کے بارے میں تو آپۖنے جواب دیا:
”تم اللہ کی عبادت ایسے کروگویاکہ تم اسے دیکھتے ہوپھراگرتم اسے نہیں دیکھتے وہ توتمہیں دیکھتاہے۔”(بخاری:50)
جب بندہ نمازکی حالت میں ہوتاہے تودراصل اپنے رب کے سامنے ہوتاہے۔ اسے اسی کیفیت کے ساتھ نمازاداکرنی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ رات کے وقت کی نمازانسان کواس کیفیت میں لے آتی ہے کہ انسان اپنے رب کوسامنے محسوس کرسکییااس کی نظروں کواپنے اوپرمحسوس کرسکے۔
یہ تعلق ہے یہ ربط ہے
عرش والے کا فرش والے کے ساتھ
اورفرش والے کاعرش والے کے ساتھ
آپۖاللہ تعالیٰ کی عبادت میں جب مشغول ہوتے تو آپ کی پنڈلیاں مبارک سوج جاتیں اور آپ کے پائوں پھٹ جاتے تھے۔
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھاسے روایت ہے، رسول اللہ ۖاجب نماز پڑھتے تو کھڑے رہتے یہاں تک کہ آپۖکے پاوئں پھٹ گئے۔ میں نے کہا: یا رسول اللہۖ! آپ اتنی محنت کیوں کرتے ہیں؟ آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دئیے گئے۔ آپۖنے فرمایا:
”اے عائشہرضی اللہ عنھا! کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔”(مسلم:7126)
دل کی رغبت اورشوق کے ساتھ کئے جانے والے عمل کے بارے میںکتناگہرا شعورتھاکہ اس کاشکرکیوں نہ اداکروں؟ آپۖ جب نمازاداکرتے تودیرتک آنسو بہاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیۖسے فرمایا:
”اور رات کے کچھ حصے میں پھر اس کے ساتھ بیدار رہ، اس حال میں کہ تیرے لیے زائد ہے۔ قریب ہے کہ تیرا رب تجھے مقام محمود پر کھڑا کرے۔”(بنی اسرائیل :79)
دنیامیں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونا،قیام کرنااسی طرح ہے جیسے آخرت میں ہم اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ رمضان میں دن کے روزے، راتوں کاقیام دراصل دونوں کاتعلق قر آن کے ساتھ ہے۔جب بندہ دن میں روزہ رکھتاہے اوررات کی تاریکی میں قیام کرتاہے تویہ راتیں کس قدرقیمتی ہوجاتی ہیں۔انسان کوان راتوں سیکس قدر تسکین نصیب ہوتی ہے، اللہ پاک نے رات کوجھکنے والوں کے بارے میں فرمایا:
”وہ راتوں کوبہت کم سویاکرتے تھے۔”(الذاریات:17)
اللہ پاک نے ان بندوں کی خوبی بیان کی ہے جن کی راتیں حسین ہوتی ہیں۔ بندے کاشہنشاہ کائنات سیتعلق ہوناکوئی چھوٹامعاملہ نہیں ہے۔ اس گلوب پرکسی کونے میں کسی چھوٹے سے علاقے میں ایک بندہ جب جائے نمازپرکھڑاہوتاہے اوراپنے رب کے آگے ہاتھ باندھ لیتاہے، رکوع کرتاہے ،سجدے میں چلاجاتاہے تویہ دراصل عرش والے کے ساتھ رابطے کاجڑجاناہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہرچیزاپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ آسمان کی تڑپتی بجلیوں کامرکزومحورزمین کے اندرہے اسی وجہ سے جب بادل آتے ہیں آپ یہ منظردیکھتے ہیں تڑپتی بجلیاں ہرچیزکوجلاکے، راکھ کرکے ،چیرپھاڑکے، اس کے اندرسے گزرکرزمین کے مرکزتک جاناچاہتی ہیں۔انسان کی اصل زمین میں نہیں ہے۔رب العزت نے فرمایا:
”میں نے اس میں اپنی روح پھونکی ہے۔”(ص:72)
یہ روح بے قراررہتی ہے۔ اس کے قرارکے لیے جہاں پانچ نمازیں فرض کیں وہاں نوافل کابھی موقع دیاہے۔سچی بات یہ ہے کہ یہ نوافل ہماری زندگی میں بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ نبیۖنے فرمایا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”میں نے بندے پر جو چیزیں فرض کی ہیں ، ان سے زیادہ مجھے کوئی چیز محبوب نہیں جس سے وہ میرا قرب حاصل کرے (یعنی فرائض کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرنا مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے) اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے (بھی) میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں اور جب میں اس سے (اس کے ذوق عبادت ، فرائض کی ادائیگی اور نوافل کے اہتمام کی وجہ سے) محبت کرتا ہوں تو (اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ) میں اس کا وہ کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی وہ آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ، اس کا وہ ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے ، اور اس کا وہ پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے کسی چیز کا سوال کرے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ کسی چیز سے پناہ طلب کرے تو میں اسے ضرور اس سے پناہ دیتا ہوں اور کسی چیز کو سر انجام دینے سے مجھے کوئی تردد نہیں ہوتا ، سوائے مومن کا نفس قبض کرنے کے ، کہ وہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور مجھے اس کا غم زدہ ہونا ناپسند لگتا ہے۔”(سلسلہ احادیث صحیحہ :137)
بندہ اوررب کتنافرق ہے، خالق اورمخلوق میں۔ لیکن اللہ پاک نے دونوںمیں کس قدرگہری ہم آہنگی بتائی ہے۔یہ نوافل ہیں،
اللہ تعالیٰ کے آگے دل کی خوشی کے ساتھ جھکناہے،جس کی وجہ سے بندے کویہ مقام نصیب ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے دیکھنے کواپنادیکھنااس کیسننے کواپناسننااس کے پکڑنے کواپناپکڑنااس کے چلنے کواپناچلنا قراردیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ نوافل ہیں جس کی وجہ سے رب کاقرب نصیب ہوتاہے جس کی وجہ سے انسان اس کی اطاعت کیلیے تیارہوتاہے۔ نوافل دن میں بھی اداکئے جاسکتے ہیں جیسے چاشت کے اسی طرح سے مختلف اوقات میں نوافل اداکئے جاسکتے ہیں۔لیکن رات کے نوافل کی کیاہی بات ہے۔نیندتوڑکراپنے رب کے لیے اٹھنایقیناشوق محبت اوررغبت کے بغیرممکن نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ سے اس کی توفیق مانگتی ہوں اللہ تعالیٰ ہم سب کوتوفیق عطافرمائے جھکنے کی،بچھنے کی، محبت کااظہارکرنے کی ، آنسوبہانے کی ، ہروہ عمل کرنے کی جس سیہمارا رب ہم سے راضی ہو جائے۔تہجدکی نمازکے حوالے سے اللہ رب العزت نے فرمایا:
”اوروہ سحرکے وقت مغفرت کی دعامانگاکرتے تھے۔” (الذاریات:18)
”رات کے آخری حصے میں استغفارکرنے والے ہیں۔” ( آل عمران:17)
ہم جب نبیۖکے ساتھیوں کودیکھتے ہیں مہاجرین و انصارکو، جب رات کی تاریکی چھاجاتی تھی تووہ خشوع وخضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہوجاتے تھے۔ گریہ وزاری بھی، خشیت بھی۔ رات اپنے رب کے آگے تواضع ، انکساری سے جھکے رہتے اورجب صبح ہوتی تو اپنی بہادری کے جوہردکھاتے تھے۔ مہاجرین کے گھروں میں، انصارکے گھروں میں تلاوت کے لیے مدارس قائم تھے ان کے گھرتربیت کے ادارے تھے۔ یہ ایمان کی درس گاہیں تھیں۔
گھرتوہمارے بھی ہیں ان گھروںمیں کیاکچھ نہیں ہوتاجوشیطان کی اذان ہے۔ کونساگھرہے جس میں یہ اذان نہیں گونجتی؟چاہے موبائل ٹون کے ذریعے سے ہویاٹی وی کے کسی پروگرام کے دوران یاکسی نیوزکے دوران یانیوزسے پہلے۔کون ہے جس تک اب یہ صدائیں نہیں پہنچتیں؟ جب شیطان کی اذان آئے توشیطان کیوں نہیں آئے گا۔تلاوت قر آن اورشیطان کی اذان ،کتنافرق ہے دونوں میں!
تلاوت قر آن کرنے والانوافل میں جب تلاوت کرتاہے تواپنے رب کے قریب ہوجاتاہے۔ راتوں کاقیام چھوڑدینے سے کس قدردل سخت ہوگئے ،مزاجوں میں درشتگی آگئی۔
یہ آنکھیں آنسوکیوں نہیں بہاتیں؟
دلوں کے اندراس قدرسختی کیسے آگئی؟
ایمان کیوں کمزورہوگئے؟
نبی ۖنے فرمایا:
”جس نے ایمان اورثواب کی نیت کے ساتھ رمضان کی راتوں میں قیام کیااس کے سارے پچھلے گناہ معاف کردئیے جائیں گے۔”(بخاری:2014)
کیاہم نہیں چاہتے کہ ہمارے گناہ معاف کردئیے جائیں ایمان اورثواب کی نیت، دونوں چیزوں کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ سے اجروثواب کے لیے اللہ تعالیٰ ہی سے ملاقات کرنی ہے اسی کے آگے کھڑے ہوناہے اسی کے آگے رکوع کرناہے اسی کے آگے سجدے کرنے ہیں۔
رات کے قیام پرانسان کیسے تیارہوتاہے ؟
سوال یہ پیداہوتاہے رات کے قیام پرانسان کیسے تیارہوتاہے ؟اس میں کوئی شک نہیں کہ فضیلت کی احادیث ہمیں سب سے زیادہ تیارکرتی ہیں لیکن جواحساس انسان کے لیے زیادہ معاون اورمددگاربنتاہے دراصل وہ قیامت کے دن اپنے رب کے حضورکھڑے ہوناہے۔جس دن رب العالمین کے حضورکھڑے ہوں گے اس دن کتناتڑپیں گے! کاش دنیامیں اپنے رب کے آگے کھڑے ہوئے ہوتے!کاش دنیامیں ا س کاشعورہوتا!
کیارب کاوعدہ نہیں ہے؟
”جواپنے رب کے آگے کھڑے ہونے سے ڈرگیااس کے لیے دوباغ ہیں۔”(الرحمن:46)
یہ تو حشرکے میدان میں رب کے حضورکھڑے ہونے کی پریکٹس ہے۔ قیام اللیل فرض نمازوں کے قیام کے ساتھ بے حداہمیت کاحامل ہے اوریہ قیام وہی کرتاہے جس کے دل میں اپنے رب کی محبت ہوتی ہے۔
یادکریں اس دن کوجو آنے والاہے۔جس دن ہمیں ہماری قبروں سے اٹھایاجائے گااورجوکچھ ہمارے دلوںمیں ہے اورجوکچھ ہمارے سینوںمیں ہے اس سارے دفینے کوباہرنکال دیاجائے گا۔کس قدرضرورت ہے رات کے قیام کیلیے قبروں سے اٹھنے کے منظرکی اورپھرخودقبرکی تاریکی اوروحشت رات کی عبادت کااحساس دلاتی ہے کیونکہ رات کاقیام قبرکوروشن کرنے والاہے۔اجروثواب کااحساس رات کے قیام کیلیے تیارکرتاہے۔گناہوں سے معافی کی فکرانسان کورات کے قیام کیلیے آمادہ کرتی ہے۔ہمارے اسلاف راتوں کاقیام مختلف اندازمیں کیاکرتے تھے۔کچھ لوگ ساری رات رکوع کی حالت میں، کچھ سجدے کی حالت میں ،کچھ قیام کی حالت میں،بعض روتے رہتے ،بعض غوروفکرکرتے تھے اوربعض شکرگزاری کارویہ اختیارکرتے تھے۔ آج ہمارے گھرقیام اللیل سے خالی کیوں ہیں؟ کیامیں آپ سے سوال کرسکتی ہوں کہ آج ہمارے گھرقیام اللیل سے خالی کیوں ہیں؟
آج دلوں کے اندرنوافل کی وہ تڑپ رغبت کیوں نہیں ہے ؟
مساجدمیں رمضان کے شروع کے دنوں میں نوافل اداکرنے کے لیے تراویح کیلیے لوگ زیادہ پہنچتے ہیں، دوسرے عشرے میں کمی آجاتی ہے اورتیسرے عشرے میں کچھ اضافہ ہوتاہیلیکن ایک بڑی تعداداس سے غافل ہی رہتی ہے۔ آج گھروںمیں اورمساجدمیں فرض نمازوں کو ادا کرنے والوں کی تعداد میں کس قدر کمی آگئی۔ نوافل فرائض کوپختہ کرنے کے لیے تیارکرتے ہیں۔رات کس قدرسناٹالے کر آتی ہے۔ تاریکی دلوں کوبھی تاریک کردیتی ہے۔غافل لوگوں کے دل اورزیادہ غفلت میں مبتلاہوجاتے ہیں۔کتنے ہی لوگ راتوں کوقیام کی بجائے، اللہ پاک کے آگے کھڑے ہونے کی بجائے غافل کردینے والی مصروفیات میں اپناوقت گنوادیتے ہیں۔ ڈیوائسزکس قدررب سیدورلے گئیں۔ ایسالگتاہے کہ اب قیام موبائل کے لیے رہ گیا۔ایسالگتاہے کہ اب وقت انٹرنیٹ پر بات چیت کیلئے رہ گیا۔
اپنے رب سے باتیں نہیں کریں گے؟
اپنے پیداکرنے والے کے پاس جانانہیں ہے؟اپنی زندگی کاوقت اس کی عطانہیں سمجھتے ؟
جس نے زندگی دی ہے زندگی اسی کے لیے ہے، اسی کے لیے سجدے کرنے ہیں ، اسی کے لیے راتوں کاقیام کرناہے کیونکہ راتوں کاقیام دلوں کوزندہ کردیتاہیاورجب اللہ تعالیٰ کے ڈرکی وجہ سے آنکھ کھل جاتی ہے، دل بیدارہوجاتے ہیں توانسان کے قلب وذہن میں قبرمیں لیٹنا،حشرکے دن کھڑے ہونااورپھرقبروں سے اٹھایاجاناتروتازہ ہوجاتاہے۔
جس کے ذہن میں موت کی، قبرکی ،جی اٹھنے کی ،حشرکے میدان کی جھلکیاں رہتی ہوں وہ بھلاساری رات کیسے سوسکتاہے؟
بات تویقین کی ہے اوریقین کے لیے علم ناگزیرہے۔ آج مسلمانوں کی نسلیں کن کاموں میں راتیں گزارتی ہیں؟ایمان کی حرارت رکھنے والیکن محفلوں کوگرم رکھتے ہیں؟
اللہ تعالیٰ ہمیں ،ہمار ی نسلوں کواپنی پناہ میں رکھے۔ آمین۔ ہمیں اپنی زندگیاں نبیۖکے طرزعمل کے مطابق صحابہ کرامرضی اللہ عنہ مکے طرزعمل کے مطابق گزارنی ہیں۔ان شاء اللہ
نبیۖنے سیدناعبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہماسے فرمایاتھا:اے عبداللہ! توفلاں کی طرح نہ ہوجاناوہ راتوں کوقیام کرتاتھاپھراس نے قیام کرناچھوڑدیا۔رمضان کی راتیں،قیام کی راتیں، روشن راتیں، روشن دعاہے اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو،ہماری زندگیوں کوبھی روشن کردے۔رمضان میں قیام کریں تورمضان کے بعدبھی اس سلسلے کوجاری رکھیں اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطافرمائے۔ آمین۔
[wp_news_ticker_benaceur_short_code]
پچھلاصفحہ
اگلا صفحہ