سوشل میڈیا ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مرض بن چکا ہے اور ہر بچہ ،جوان اوربوڑھا اس مرض میں مبتلا نظر آتا ہے۔سوشل میڈیا کا آغاز کب؟ کیوں؟ کیسے ہوا؟ اور اس کا استعمال کیا ہونا چاہیے تھا ؟اور کیا ہو رہا ہے؟ شاید یہ سوال آپ میں سے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں گردش کرتے ہوں گے ۔ بڑھتی ہوئی سوشل میڈیا کے منفی پہلو وں کو دیکھتے ہوئے میرے ذہن میں بھی یہ سوال ابھرا تو میں نے سوچا کیوں نا اس پہ بات کر لی جائے ۔ کیوں کہ جب بھی کوئی مسئلہ درپیش آتا ہے تو اس کا حل تلاش کرنے سے ملتا ہے ۔ اور کسی بھی سوال کا جواب تب تک سامنے نہیں آتا جب تک سوال خود سامنے نا آئے ۔
سوشل میڈیا کا آغاز بہت سالوں یا کہہ لیجئے کسی صدی پہلے ہوا ہو گا ۔پھر اس کی ترقی میں اضافہ ہوتا گیا اور قطرے سے دریا وجود میں آیا ۔
اپنے طور پہ سائنس کی یہ ایک بہترین ایجاد ہے ۔ جس پہ اگر غورو فکر کیا جائے تو ایجاد کرنے کا مقصد آسانی مہیا کرنا اور دیگر فوائد معلوم ہوتا ہے۔کیوں کہ جب بھی کوئی شخص کچھ ایجاد کرتا ہے تو اس کے ذہن میں مقصد خود کو کسی مثبت حوالے سے ثابت کرنا ہوتا ہے۔
اس ڈیجیٹل دور میں سوشل میڈیا اپنی پوری آب و تاب سے خود کو منوائے ہوئے ہے ۔یہ ایک وسیع نیٹ ورک بن چکا ہے اگر دیگر ذرائع کی بات کی جائے تو زیر فہرست ٹویٹر،فیس بک انسٹاگرام اور بہت سے ذرائع ہیں ۔ جس کو استعمال کرتے ہوئے بہت سارے لوگ اچھی معلومات، رویوں، اخلاقیات اور تعلیمات کو فروغ دے رہیں ہیں جو اپنی پائیدار سوچ اور صحت مند ذہنیت کا ثبوت دیتے ہیں۔
اب اگر انہیں ذرائع کے استعمال پر نظر ڈالی جائے اور جمع تفریق کی پوٹلی کھولی جائے تو بد قسمتی سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مثبت کی بجائے منفی استعمال اور رویوں کو ذیادہ فروغ مل رہا ہے ۔جیسا کہ مزاح کے نام پہ انسانوں کی تذلیل، رشتوں کی تذلیل اور اور ہماری بنیادی رسم و رواج کی بھی تذلیل ۔مزاح کے نام پر اتنی منفیات پھیل رہی ہے ہر اچھی بری بات کو مزاح کا نام دے کر پیش کیا جا رہا ہے۔جب کہ مذاح کے بذاتِ خود کچھ اصول ہیں۔انسانی تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے ۔ رشتوں کو مذاق بنا دیا گیاہے۔
غیر اخلاقی رویوں کا فروغ۔ جعلی اکاونٹس کے ذریعے سے منفیات پھیلانا ۔بے ادب اور بد لحاظی کا فروغ۔اور اس کے علاوہ بھی بہت سی منفیات جس کی وسعت کا احاطہ یہ مختصر تحریرشاید نا کر سکے لیکن ہم سب بخوبی واقف ہے۔اب اصل بات کیا ہے کہ جب بھی کبھی لفظ سوشل میڈیا زیرِ بحث آئے تو یہ الفاظ سننے کو ملتے ہے۔
یہ تو ایک بری چیز ہے۔اس نے معاشرے میں منفیات کو بڑھا دیا ہے۔ اس سے ہماری نسلیں خراب ہو رہی ہے وغیرہ وغیرہ ۔
اور یہ بات ایک اندازِنظر کے لحاظ سے درست بھی ہے۔ اس سے انکار بھی نہیں ۔
لیکن پس پردہ اگر دیکھا جائے تو سوشل میڈیا کیا ہے ؟کوئی جادوئی چھری جو اپنا جادو کا استعمال کر کے اپنے مقاصد حاصل کر رہی ہو؟ یا کوئی بھوت جس نے اپنا خوف اور سحر لوگوں پہ ڈال رکھا ہے ؟یا کوئی خود بخود سر انجام ہونے والی طاقت جس پہ کسی کا کوئی اختیار نہیں؟
اگر ان میں سے کچھ بھی نہیں ہے تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ منفیات کہاں سے آرہی ہے ؟
سوشل میڈیا تو ایک بے جان آلہ کار ہے جو انسانی ہاتھوں کا محتاج ہے ۔
میں نے آغاز میں ذکر کیا سوشل میڈیا ایک مرض بن چکا ہے اور اس کے منفی پہلووں پر سرسری سی روشنی بھی ڈالی ۔اب سوچنا یہ ہے کہ مرض بن چکا ہے یا بنا لیا گیا ہے؟ یقیناََ بنا لیا گیا ہے۔
تو ثابت ہوا کہ پس پردہ سوشل میڈیا کے ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے جو بھی پہلو اور رویے سامنے آتے ہے ان کا ذمہ دار انسان ہے ۔
اگر اسے مرض بنایا ہے تو ہم نے خود ۔اگر یہ ہماری اخلاقیات کو تباہ کر رہا ہے تو ذمہ دار ہم خود ۔بلکہ یوںکہہ لیجئے جو اخلاقیات ہماری تھی وہی ایک ذریعہ ملنے پر سامنے آگئیں ۔ کیوں کہ جو ہمارے پاس ہو ہم وہی معاشرے کو دے سکتے ہے ۔اور اگر ادب و آداب سے فاصلہ ہو رہا ہے تو بھی ذمہ دار ہم خود۔توکیوں نا بے جان چیزوں پہ لعن طعن کرنے کی بجائے خوکو درست کر لیا جائے ۔ اگر ذریعہ یا سہولت ہمیں ملی ہے تو یہ ہمارا فرض ہے کہ اس کا مثبت استعمال کیا جائے اور اسکا فائدہ اٹھایا جائے۔ جیسے کہ اپنی اسلامک تعلیمات کو فروغ دیا جائے ۔ حسن اخلاق کو فروغ دیا جائے ۔اپنے ذریعہ معاش یا کاروبار کے فروغ کے لئے بھی استعمال کیا جائے ۔
لیکن خددارا اپنے اصل سے دور مت ہوں۔خودکو اتنا چھوٹا اوراخلاقی طور پر کمزور مت دکھائیے کیوں کہ ہمیں اللہ تعالی نے بہترین پیدا کیا ہے اور اپنے بندوں میں اپنی وصف بھی تقسیم کیے ہے کسی کو سخی بنایا ،کسی کو احساس کرنے والا اور کسی کو معاف کرنے والا ۔لیکن ہم نے اپنے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے یہ اوصاف معدوم کر دیے اور خود ساختہ منفی اوصاف کو غالب کر لیا۔
ہمیں ضرورت ہے کہ کسی بھی چیز ،انسان یا ذرائع کو نمورد الزام ٹھہرانے کی بجائے اپنا احتساب کر لیں ۔اور جہاں لگے کہ ہم ٹھیک نہیں وہاں سے خود کی توصحیح کر لیں۔
[wp_news_ticker_benaceur_short_code]
پچھلاصفحہ