انسان اپنی تخلیق کے بعد مختلف زاویے سے ‘ مختلف انداز سے ‘ مختلف اشکال سے اور مختلف مراحل سے ترقی کی منازل طے کرتا چلا آرہاہے۔ بعض تھیوریز کے مطابق انسان نے جسمانی ارتقاء کا سفر بھی طے کیا جس میں اس کے ظاہری خدوخال اور بناوٹ و سجاوٹ میں تبدیلی و ترقی آتی رہی لیکن ایک منزل پر پہنچ کر اس کا جسمانی ارتقاء ٹھہرائو یا جمود کا شکار ہوا جس کے بعد سے لمحہ موجود تک اس کی ساخت میں ظاہری تبدیلیاں وقوع پذیر نہیں ہوئیں لیکن اس کا یقین نہیں کہ کتنی صدیوں کے سفر کے بعد کیا کبھی مزید تبدیلیاں رونما ہوں گی یا انسان اپنے ظاہری خاتمے سے دوچار ہوگا یا پھر ایک نئی تخلیق کے بعد نئی دنیا کا سامنا کرے گا۔ ؟ یہ سوالات صاحبان ِ تحقیق اور جستجویان ِ حقیقت کو متوجہ کرتے رہیں گے کہ وہ انسان کے ماضی کی جسمانی تبدیلیوں کو مستقبل کے جسمانی ارتقاء سے کیسے مربوط و منسلک کرتے ہیں یا پھر جسمانی جمود پر عقیدہ رکھ کر مزید ارتقاء کو ناممکن و عبث قرار دیتے ہیں۔
شاید یہ بھی مشاہدے کا حصہ اور انسانی تاریخ کا تسلسل ہے کہ جسمانی ارتقاء کے ساتھ ساتھ انسان کے شعوری اور فکری ارتقاء بھی وقوع پذیر ہوتا رہا ہے یعنی انسانی اگر ایک جانور سے موجودہ شکل تک پہنچا ہے تو اس کا شعوری اور فکری ارتقاء بھی ایسے ہی ترقی اور تبدیلی کے مراحل طے کرتا رہا ہے جیساکہ اس کا جسم۔ وہ جس طرح جسمانی ارتقاء و تبدل کے مراحل سے گذرا ہے ویسا ہی شعوری اور فکری ارتقاء کے مراحل سے ہوکر آگے کی طرف بڑھا ہے۔ مستقبل پر بحث کیے بغیر اس موجودہ روشن حقیقت سے ہم انکار نہیں کرسکتے کہ انسان کی جسمانی ارتقاء میں صدیوں سے کوئی خاص تبدیلی سامنے نہیں آئی لیکن اس کے شعوری اور فکری ارتقاء کا سفر تیزی اور تسلسل سے جاری ہے۔ شاید اب اس کی بقاء بھی اس کے اسی ارتقاء کے ساتھ مشروط ہوچکی ہے۔ لگتا یہی ہے کہ ارتقاء کو پسند کرنا ‘ ارتقاء کی طرف بڑھنا اور ارتقاء کے لیے جانفشاء کاوشیں کرنا انسانی فطرت کا لازمہ ہے اور ارتقاء سے گریز ‘ ارتقاء کی ناپسندیدگی اور ارتقاء کی نہ طرف بڑھنے جیسے تمام اعمال و افعال غیر فطری شمار ہوتے ہیں۔ لہذا کہا جاسکتا ہے کہ انسان اور ارتقاء لازم وملزوم ہیں ۔ ارتقاء سے دامن چھڑانے اور گریز پانے رہنے والے انسان شاید اپنی ساخت و بافت میں انسان نظر آتے ہوں لیکن علمی ‘ فکری اور شعوری سطح پر دائرہ انسانیت سے دور نظر آئیں گے۔
ترقی پسندی یوں تو دنیا میں مختلف زاویوں سے موجود رہی ہے اور موجود رہے گی۔ عمومی اور عوامی سطح پر ترقی پسندی کو مادیت کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے یا دنیا داری کے معاملات سے جوڑا جاتا ہے یا مشینی تبدیلیوں کے سفر کو ترقی پسندی کہا جاتا ہے ممکن ہے یہ بھی ترقی پسندی کا ایک اپنا اور الگ سے فیز ہو۔ کیونکہ یہ دنیاوی اور مشینی ارتقاء بھی تو انسان کی فکر کا ہی نتیجہ ہے لیکن اصل ترقی پسندی انسان کے نظریات و افکار کے ساتھ وابستہ رہی ہے۔مذہب کا سفر کرنے والے بھی محدود حد تک ترقی پسندی اختیار کرتے چلے آرہے ہیں اسی ارتقاء کی ایک شکل اجتہاد ہے جس پر خود اہل مذہب کے ہاں شدت سے اختلاف موجود ہے لیکن پھر بھی اہل ِ اجتہاد اور غیر مقلدین عملی طور پر ارتقاء و اجتہاد سے دامن چھڑا نہیں سکے۔ اہل ِ ارتقاء ہر زمانے میں مطعون و منفور رہے ہیں یعنی ترقی پسندانہ نظریات و افکار کے حامل طبقات و اشخاص اپنے اپنے زمانے میں عام تنقید سے لے کر قتل کے آخری مرحلے سے گذرتے رہے ہیں۔ اہل زمانہ نے بعد میں انہی لوگوں میں سے بعض کے نظریات سے نہ صرف اتفاق کیا بلکہ خوب استفادہ بھی کیا۔ لیکن بعض شخصیات کے افکار وقت گذرنے کے ساتھ معدوم ہوگئے یا پھر اپنی کم افادیت کی بنیاد پر متروک ہوگئے یا پھر اہل ِ ارتقاء کے تازہ افکار نے ان کے سابقہ افکار کی نفی کرکے انہیں منسوخ کردیا۔
ترقی پسندی کا سفر انسانی فطرت اور معاشرت کے ساتھ ساتھ طے ہورہا ہے اس میں خوبیاں اور خامیاں ایسے ہی انسانی فکر کا حسن شمار ہوتی ہیں جیسے انسانی مزاج ‘ انسانی معاشرت اور انسانی عادات کی خوبیاں اور خامیاں ہیں۔ انسان صدیوں سے جس طرح اپنی معاشرت بہتر بنانے ‘ اپنی عادات کو سنوارنے اور اپنے مزاج کو تبدیل کرنے کی جستجو میں ہے اسی طرح ترقی پسندی کا سفر بھی اپنی خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ جاری ہے لامحالہ بات ہے کہ اہل ِ ارتقاء بھی اپنے فکری سفر کو حسین بنانے اور اس سفر میں اپنے ہم سفروں کی تعداد بڑھانے کے لیے زاد ِ راہ میں بہتری کی کاوشیں کرتے رہتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی کہ اپنی خامیوں کو نظر انداز کرکے خوبیوں کو اجاگر کیا جائے تاکہ جہاں اہل ِ ارتقاء کی تعداد میں اضافہ ہو وہاں انسانی معاشروں کو اجتماعی طور پر ترقی پسندی کے راستے پر چلایا جائے۔ اسی تسلسل میں دنیا کے دیگر ملکوں ‘ خطوں اور شہروں کی طرح وطن ِ عزیز پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بھی ترقی پسندانہ فکر کے حامل افراد نے ”پروگریسو رائٹر ایسوسی ایشن ” کے نام سے زندگی کے مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ایک اجتماعی فورم مہیا کیا ہوا ہے جہاں تمام علمی ‘ فکری ‘ ادبی ‘ سماجی ‘ سیاسی ‘ معاشرتی ‘ تہذیبی ‘ عالمی ‘ ارتقائی اور سائنسی موضوعات پر اہل علم و دانش کبھی ہفتہ وار اور کبھی پندرہ روزہ وقفے کے ساتھ باہمی نشستیں منعقد کرتے ہیںدنیا بھر کی طرح پی ڈبلیو اے اسلام آباد بھی اپنے نظم کو قائم رکھنے کے لیے ‘ فعال لوگوں کو سامنے لانے کے لیے ‘ اظہار رائے کی آزادی یقینی بنانے کے لیے سالانہ بنیادوں پر انتخابات منعقد کراتی ہے جس میں دستور العمل کے تحت امیدواروں کی اہلیت کا جائزہ لیا جاتا ہے جس کے بعد ان کے انتخاب کے لیے اہل ووٹرز کے ذریعے مختلف عہدوں پر باقاعدہ انتخابی عمل انجام دیا جاتا ہے حالیہ انتخابات میں معروف ادبی شخصیت فقیر سائیں بطور صدر اور معروف قانون دان فہیم قریشی جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے ہیں۔ راقم نے بھی نائب صدارت کے انتخاب میں حصہ لیا۔ ترقی پسندوں کے اس مجموعے کی سرپرستی ‘ نظارت اور مشاورت میں معروف ادبی شخصیات امداد آکاش ‘ روش ندیم ‘ خورشید حسنین’ واصف ارشد ‘ ناظر محمود اور دیگر اہل ِ قلم و اہل ِ دانش شامل ہیں۔نئے سیٹ اپ سے بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں کہ وہ کس طریقے سے اپنے دامن میں وسعت پیدا کرتے ہوئے مزید ترقی پسندوں کو شامل کرتے ہیں ؟ کس طرح اپنے نظریات کو وسعت دیتے ہوئے نئے ترقی پسند لوگ سامنے لاتے ہیں؟ کتنوں کو مائل کرتے ہیں کتنوں کو قائل کرتے ہیں اور کتنوں کو فاعل کرتے ہیں؟ پی ڈی اے اسلام آباد اس لحاظ سے انفرادیت کا حامل ہے کہ اس کے زیر انتظام ہمہ جہت سرگرمیاں سامنے آتی رہتی ہیں اور مختلف اور مخالف زاویے و نکتہ نظر کے حامل موضوعات کو فراخ دلی اور آسانی کے ساتھ زیر بحث لایا جاتا ہے۔ جس طرح تمام اہل ادب اور اہل علم کی سرگرمیوں اور فعالیت کا مرکز اکادمی ادبیات ہے اسی طرح ترقی پسندوں کی فعالیت کا مرکز بھی اکادمی ادبیات ہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے پی ڈی اے کے فورم سے مکالمے اور ڈائیلاگ کا سلسلہ بھی شروع ہونا چاہیے جس میں کسی بھی علمی و فکری یا ادبی و سیاسی موضوع پر باقاعدہ مکالمے کا اہتمام کیا جائے اور مختلف و متضاد خیالات کے حامل طبقات کی نمائندگی میں اہل علم و دانش کو مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ اذہان کے دریچے وا ہوں۔ دماغ کے بند کواڑ کھلیں اور معاشرے کو علمی ارتقاء کی طرف گامزن کیا جاسکے۔
[wp_news_ticker_benaceur_short_code]
پچھلاصفحہ
اگلا صفحہ