[wp_news_ticker_benaceur_short_code]

امریکہ ایران کشیدگی

[mashshare]

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پچھلے برس کے اس بیان کے مطابق کہ امریکہ کی انقلابی فوج نے 1770 کی دہائی میں برطانیہ کے زیرِ کنٹرول ہوائی اڈوں پر قبضہ کر لیا تھا تو اسے اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو بدھ کے روز ٹرمپ کی جانب سے ایک ٹویٹ کی گئی تھی جس میں امریکی بحریہ کے کمانڈروں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ امریکی جنگی جہازوں کو ہراساں کرنے والی ایرانی Gun Boats کو فائرنگ کر کے ڈبو دیں۔سال 2020 کے آغاز میں عراق میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد یقینی طور پر یہ امریکہ کی طرف سے براہ راست فوجی کارروائی کی سب سے بڑی دھمکی تھی۔جنرل قاسم سلیمانی کے قتل سے امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ تو پھر صدر ٹرمپ کی حالیہ دھمکی کے پیچھے کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ اور اب جب ایران اور امریکہ دونوں ممالک COVEDـ19 کے وبائی مرض سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں تو اس نئی کشیدگی کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟
صدر ٹرمپ کی اس دھمکی کے پیچھے گذشتہ ہفتے پیش آنے والا ایک واقعہ ہے، جس میں امریکہ کے مطابق پاسدارانِ انقلاب نیوی کی متعدد مسلح Speed Boats نے خلیج سے گزرنے والے امریکی جنگی جہازوں کے بحری بیڑے کو تنگ کیا۔ان جہازوں میں یو ایس ایس لیوس بی پْلر، ایک موبائل بیس جہاز، اور ایک تباہ کن بحری جہاز یو ایس ایس پال ہیملٹن شامل تھے۔امریکی بحریہ کا کہنا ہے کہ ایک تیز رفتار ایرانی Gun Boats نے ان جہازوں کو کاٹتے ہوئے امریکی کوسٹ گارڈ کٹر کے سامنے 10 گز (9 میٹر) تک کا فاصلہ عبور کیا۔پاسدارانِ انقلاب نے تصادم کا اعتراف کیا ہے لیکن انھوں نے اس کا الزام امریکیوں پر ڈالا ہے۔جمعرات کے روز پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر انچیف جنرل حسین سلامی کا کہنا تھا کہ انھوں نے ایران کی بحری فوجوں کو ‘خلیج فارس سے کسی بھی امریکی دہشت گرد فورس جس سے ایران کی فوج یا غیر عسکری جہاز رانی کو خطرہ ہو، ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔’
اب الفاظ کی اس جنگ کے عملی جنگ میں بدلنے کا خطرہ نظر آ رہا ہے۔ بہرحال صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹویٹر پر دیے گئے ‘حکم’ میں تھوڑی بہت تبدیلی آئی ہے۔خلیج میں امریکی جنگی جہازوں کے کمانڈروں کے پاس پہلے ہی اپنے عملے کی زندگیوں اور ان کے جہازوں کی حفاظت کے لیے جو بھی اقدامات وہ ضروری سمجھیں، کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور وہ چھوٹی ایرانی کشتیوں کے ہتھکنڈوں سے نمٹنے کے عادی ہیں۔لیکن اس واقعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر کی توجہ COVEDـ19 پر ہونے کے باوجود پہلے سے موجود بین الاقوامی تناؤ وہیں کا وہیں موجود ہے۔ بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس میں اضافہ ہوا ہو۔اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور ایران ایک دوسرے کے حوالے سے مستقل Strategic اہداف رکھتے ہیں جن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ایران خطے میں امریکی اثر و رسوخ کو کم کر کے اپنی طاقت بڑھانا چاہتا ہے۔مثلا شام میں کیے گئے حالیہ اسرائیلی فضائی حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اور اس کے اتحادی ابھی بھی پورے زور و شور سے وہاں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔
ایران میں COVEDـ19 کے بحران اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی افراتفری اور غیر یقینی صورتحال سے سخت گیروں رہنماؤں کو فائدہ پہنچنے کا خطرہ موجود ہے اور ہو سکتا ہے ایران کے کچھ رہنماؤں کو ایسا لگا ہو کہ چونکہ امریکہ کو اپنے ملک میں Challenges درپیش ہیں، اس لیے شاید وہ خلیج میں کسی بھی کارروائی میں کم دلچسپی رکھتا ہو۔دوسری طرف ٹرمپ انتظامیہ اس امید پر ایران پر ‘زیادہ سے زیادہ دباؤ’ کی اپنی پالیسی کو دوگنا کر رہی ہے کہ شاید یہ COVEDـ19بالآخر ایران میں اسلامی حکومت کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی دوران ایران دوسرے محاذوں پر پیش رفت جاری رکھے ہوئے ہے۔بدھ کے روز ایران نے اپنی Satellite مدار میں بھیجی ہے۔ پاسدارانِ انقلاب کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک فوجی Satellite ہے جسے North Korea کی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کے میزائل پروگرام میں مزید بہتری آتی جا رہی ہے۔اگرچہ ایران عالمی طاقتیں کہلانے والے ملکوں کے ساتھ کیے گئے سال 2015 معاہدہ کا حصہ ہے جو اس کی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرتا ہے، لیکن وہ اس معاہدے کی متعدد شرائط کی خلاف ورزی کر رہا ہے
ماہرین کو تشویش ہے کہ اگرچہ ایران کی جانب سے کئیے بہت سے اقدامات ایسے ہیں کہ ان کا رخ موڑا جا سکتا ہے، لیکن شاید وہ اس مقام کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں وہ کاربن فائبر سنٹری فیوجز یعنی یورینیم کی افزودگی کے لیے ضروری مشینری کو بین الاقوامی معائنے سے بالاتر بنا سکتے ہیں۔اگر تھوڑے عرصے کے لئے ذہن میں یہ سوچ کہ شاید امریکہ ایران کشیدگی کم ہو جائے، لیکن ایسا ہونے کے کوئی آثار So far نظر نہیں آرہے۔لیکن یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اچانک کسی Dispute کے پھوٹ پڑنے کا خطرہ اب بھی اتنا ہی برقرار ہے، بلکہ شاید پہلے سے بھی زیادہ کیونکہ دونوں ممالک Coronavirus کے باعث ایک دوسرے کی کارروائی کرنے کی صلاحیت کے متعلق مغالطے کا شکار ہیں۔پاکستان کے مطابق امریکہ اور ایران کے درمیان جاری فوجی کشیدگی کے نتائج انتہائی تباہ کْن ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کی جانب سے حالیہ کشیدگی ختم کرانے کیلئے مصالحتی کوششیں جاری و ساری ہیں۔ دیکھیں اب یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔


اپنی راہےکااظہار کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.