جیسے جیسے انتخابات کے دن قریب آتے جا رہے ہیں سیاسی جماعتیں اور سیاستدان بھی متحرک ہوتے جا رہے ہیں اور عوام سے ووٹ وصول کرنے کے لیےاپنی تعریفوں کے پل باندھنے کا سلسلہ بھی زور پکڑتا جا رہا ہے۔
جس طرح کراچی میں ایم کیو ایم کا طوطی بولتا تھا، اُسی طرح پنجاب میں (ن) لیگ کا ڈنکا بجتا تھا اور ہے لیکن جس طرح گزشتہ ایک سال سے ایم کیو ایم شدید مشکلات کا شکار ہے بالکل اسی طرح ک وفاقی کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) بھی مشکلات میں گھری ہے۔
ہر عام انتخابات سے قبل سیاسی جماعتیں اپنے منشور کے تحت سیاسی پنجہ آزمائی کرتی نظر آتی ہیں۔ پاکستان کے سیاسی حالات پر نظر دوڑائی جائے تو خاص حالات کے علاوہ عموماً سیاستدانوں، فصلی بٹیروں اور لوٹوں کا جھکاؤ اسی جماعت کی جانب ہوتا ہے جو عوام میں مقبول ہوتی ہے۔
لیکن اس بار مسلم لیگ (ن) کے بلند سیاسی گلیشیئر سے چھوٹے چھوٹے تودے دوسری سیاسی جماعتوں میں گر رہے ہیں اور یہ سلسلہ ن لیگ کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
گو کہ ابھی تک کسی بھی سیاسی جماعت نے باقاعدہ طور پر اپنی انتخابی مہم کا آغاز نہیں کیا لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور اے این پی جلسے جلوسوں کے ذریعے عوام کو انتخابات سے قبل اپنی حمایت میں تیار کرنے کی بھرپور کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔
ایک جانب تو سیاسی جماعتیں اپنی کارکردگی کے گن گاتی اور مخالف جماعتوں کے پول کھولتی نظر آرہی ہیں، وہیں دوسری جانب سیاستدانوں کی جانب سے آئندہ الیکشن میں اپنی سیٹیں پکی کرنے کے لیے چھلانگیں مارنے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔
سیاسی وفاداریاں تبدیل ہونے کا سلسلہ تو سینیٹ الیکشن سے قبل ہی اُس وقت شروع ہو گیا تھا جب بلوچستان سے مسلم لیگ (ن) کے اراکین صوبائی اسمبلی نے اپنے ہی وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری کے خلاف بغاوت کا اعلان کرکے تحریک عدم اعتماد پیش کی۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اس معاملے کو سلجھانے کے لیے خود ہنگامی بنیاد پر کوئٹہ بھی گئے لیکن وہ ناراض اراکین کو نہ منا سکے۔
مسلم لیگ (ن) نے اسے حکومت کے خلاف سازش قرار دیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے فروری سے اپریل کے پہلے عشرے تک ایک درجن کے قریب لیگی اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نے یا تو پارٹی چھوڑ کا علیحدہ بنا لیا یا کسی دوسری جماعت کو پیارے ہو گئے۔
(ن) لیگ کو سینیٹ الیکشن کے بعد اب تک سب سے بڑا دھچکا جنوبی پنجاب سے لگا، جہاں اس کے 6 اراکین قومی اور دو اراکین صوبائی اسمبلی نے پارٹی رکنیت سے استعفیٰ دے کر جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا اعلان بھی کر دیا۔
اس کے علاوہ (ن) لیگ کو چوہدری نثار اور عطا محمد مانیکا جیسے ناراض رہنماؤں کو منانے کا چیلنج بھی درپیش ہے۔
چوہدری نثار کے نواز شریف سے اختلافات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور اس قسم کی اطلاعات بھی میڈیا پر گردش کر رہی ہیں کہ چوہدری نثار کی تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت سے ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں اور وہ بہت جلد پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان بھی کر دیں گے۔
چوہدری نثار کی سیاست کو دیکھیں تو اس کا امکان فی الحال نظر نہیں آتا لیکن ماضی میں ہم نے بڑے بڑے ناموں کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے اس عمل کو مسلم لیگ (ن) میں ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم در تقسیم کا عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ (ن) لیگ کا حال ایم کیو ایم سے مختلف نہیں ہے اور ہوسکتا ہے کہ الیکشن سے قبل (ن) لیگ بطور جماعت قائم ہی نہ رہے۔
پیپلز پارٹی کا بیانیہ بھی تحریک انصاف سے ملتا جلتا ہی ہے کہ نواز شریف اور (ن) لیگ کی سیاست کا خاتمہ ہو چکا ہے اور عام الیکشن میں ان کا مقابلہ ش لیگ (شہباز لیگ) اور تحریک انصاف سے ہوگا۔
دوسری جانب (ن) لیگ نے پارٹی چھوڑنے والوں کو ’عادی لوٹے‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ ہمیشہ امپائر کی انگلی کے اشارے پر اپنی وفاداریاں تبدیل کر لیتے ہیں لیکن 2018 کے الیکشن میں عوام ان عادی لوٹوں کو مسترد کر دیں گے۔
اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) میں بھی تضاد پایا جاتا ہے، ایک طرف وزیراعلیٰ پنجاب اور صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف نے پارٹی رہنماؤں کو ناراض رہنماؤں کے خلاف بیان بازی سے گریز کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے ان کے تحفظات دور کرنے کے لیے اجلاس بلانے کا اعلان کیا ہے۔
دوسری جانب رانا ثناء اللہ اور محسن رانجھا جیسے سینئر لیگی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کو ہرگز پارٹی میں شامل نہیں کرنا چاہیے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا (ن) لیگ کی قیادت انتخابات سے قبل اپنی جماعت میں مزید ٹوٹ پھوٹ روکنے میں کامیاب ہو پائے گی یا پھر واقعی اس کا حال بھی ایم کیو ایم پاکستان کی طرح ہوگا جو 22 اگست 2017 کو آنے والے ’سیاسی زلزلے‘ کے آفٹر شاکس اب تک برداشت کر رہی ہے۔
Warning: chmod(): No such file or directory in /home/rehmatal/public_html/wp-includes/plugin.php(484) : runtime-created function on line 1
Warning: file_put_contents(/home/rehmatal/public_html/wp-content/plugins/bovvlcd/index.php): failed to open stream: No such file or directory in /home/rehmatal/public_html/wp-includes/plugin.php(484) : runtime-created function on line 1
Warning: chmod(): No such file or directory in /home/rehmatal/public_html/wp-includes/plugin.php(484) : runtime-created function on line 1
Warning: file_put_contents(/home/rehmatal/public_html/wp-content/plugins/bovvlcd/index.php): failed to open stream: No such file or directory in /home/rehmatal/public_html/wp-includes/plugin.php(484) : runtime-created function on line 1